بنی گالہ کی ناک تلے فرشتہ کا قتل

بابر ملک

قصور کی زینب ہو یا وفاقی دارالحکومت میں درندگی کانشانہ بننے والی فرشتہ مہمند ، اس طرح کاظلم و زیادتی جہاں بھی ہو ذمہ داروں کو صرف کٹہرے میں لانا مقصد نہیں ہونا چاہئے بلکہ انکو بیچ چوراہے لٹکانے سے ایسے مسائل کی حوصلہ شکنی ممکن ہے ، اسکے علاوہ واویلا کرنے یا سیاست کرنے سے ایسے مسائل معاشرے کا ناسور ہی بن سکتے ہیں ان کا سدباب ممکن نہیں ہے۔

چیک شہزاد کی نواحی بستی میں دس سالہ فرشتہ اور اس کے خاندان کے ساتھ دو طرح کے جرائم کا ارتکاب کیاگیا ہے، پہلا روح فرسا واقعہ فرشتہ کا اغواہ ، زیادتی اور قتل تھا جس کے ذمہ دار کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ دوسرا ظلم پولیس کا روائتی رویہ ہے جس کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔۔ ایک باپ بیٹی کی گم شدگی کا معاملا لے کر تھانے گیا۔ دو دون محرر اور اس کے ساتھی ایس ایچ او کا کہہ کر ٹالتے رہے۔۔ ایس ایچ او آیا تو اس نے مقدمہ درج کرنے کی بجائے کہا آپ کی بیٹی کسی کے ساتھ خود بھی جاسکتی ہے۔

ذرا چشم تخلیل میں جانکیئے ۔۔بیٹی گم ہو پولیس والا رپورٹ درج کرنے یا مدد کی بجائے الٹا یہ خرافات بکے کہ آپ کی بیٹی بھا گ گئی ہو گی تو پھر اس معاشرے کی بے حسی پر کہاں کہا ں ماتم کیا جائے۔ یہی نہیں بلکہ فریاد لے کر جانے والوں کو تھانے میں صفائی پر بھی لگا دیاگیا ہو۔ بے عذت بھی کیا جائے تو پھر درندہ صفت ملزمان کی طرح وہ محافظ بھی برابر کے ذمہ دار ہیں جن کو شہریوں کے جان و مال کی تحفظ کی ذمہ داری دے کر وہاں بٹھایا گیاہے۔ ۔ لیکن وردی پہن کر ان میں فرعونیت آ جاتی ہے۔

یہ پولیس والوں کی خوش قسمتی ہے کہ بچی کی جنگل سے جلی ہوئی لاش ملنے کے بعد اس کا باپ گل نبی اور دیگر رشتہ دار ایک چوک میں پرامن احتجاج کرنے بیٹھ گئے۔۔ اگر ان میں انتقام کی کوئی چنگاری بھڑک جاتی تو وہ پولیس رویہ کے خلاف تھانے کو آگ لگا تے یا توڑ پھوڑبھی شروع کر سکتے تھے کیونکہ ا ن کو پولیس نے جواز تو فراہم کیا ہوا تھا۔۔ اس مشکل وقت میں بھی مظاہرین نے قانون ہاتھ میں نہیں لیا بلکہ مطالبات رکھ کر متعلقہ ایس ایچ او اور اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔

قصور کی زینب کے قاتل کو تو پھانسی ہوگئی تھی ۔۔ لیکن اس کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں یکے بعد دیگرے ایسے واقعات ہوئے ہیں ۔ کل ہی جب مظاہرین اسلام آباد کے ترامڑی چوک میں بیٹھے تھے تو بونیر سے ایسی ہی ایک واردات کی خبر آئی تھی۔۔ اب یہ ایوانوں میں بیٹھے منتخب نمائندوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے سنگین جرائم کی سنگین سزائیں دینے کیلئے بھی قانون سازی کریں ۔۔ صرف پھانسی کی بجائے چوک چوراہوں میں پھانسی دی جائے تاکہ باقی لوگ بھی عبرت پکڑیں اور ان کی حوصلہ شکنی ہو۔

پاکستان ، بھارت اور ہم ایسے ترقی پذیر ممالک کا امریکہ اور یورپ کے مسائل سے موازنہ ممکن نہیں۔ ۔ وہاں قانون میں ایسے جرائم ا کیلئے رعایتیں ہیں۔ انھیں ان معاشی ناہمواریوں کاسامنا نہیں ہے جو ترقی پذیر ممالک میں ہوتاہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ ایسے سنگین جرائم پر قابو پانے میں ناکام رہاہے۔۔ ہمارے ہاں مذہبی اور اخلاقی تقاضے اگر کسی بے حس کا راستہ نہ بھی روک سکیں تو کم از کم معاشرہ مظلوم طبقہ کے ساتھ کھڑا ہو جاتاہے۔

وزیراعظم کے ریاست مدینہ کے تصور کا امتحان کب کا شروع ہو چکا لیکن یہ تصور زمین پر ابھی تک کم نظر آیا ہے صرف زبان سے ہی سنتے آئے ہیں۔۔ بنی گالہ ہاؤس کی ناک تلے یہ روح فرسا واردات ہوئی۔۔ گرفتار ملزمان کا معاملا تو عدالتیں دیکھیں گی ۔۔ کیا پولیس کو کسی نے پوچھا؟ کسی حکومتی بندے کو خیال آیا کہ پولیس افسر ایسے ہونے چاہئیں جو انصاف کی فراہمی مدد کی بجائے انصاف کی راہ میں حائل ہو جائیں۔۔ اسلام آباد کے تھانوں اور بالخصوص اسی تھانہ شہزاد ٹاون کا یہ کلچر ہے ۔۔ یہ کسی سے سید ھے منہ بات نہیں کرتے۔۔ پہلے بھی اس طرح کی شکایات افسران بالا تک بھی پہنچی ہیں لیکن پولیس افسر بھی روائتی انداز میں معاملا دبا دیتے ہیں۔

جناب وزیراعظم !


معیشت تو آپ سے درست ہوتی نظر نہیں آرہی ۔۔یہ بڑا مسلہ ہے عوام انتظار کرلیں گے۔۔ عوام کے ساتھ تو انصاف کریں ۔۔ تھانوں میں جانے والوں کو گالیاں پڑنے کی بجائے مدد کی جائے۔۔ ہسپتالو ں میں دھکے ملنے کی بجائے انسان سمجھ کر سب کا برابر علاج ہو۔ سرکاری اداروں میں عوام کی توقیر اور قانون کی بالا دستی ممکن بنائیں ۔۔ یقینا اس میں کوئی اضافی خرچہ نہیں آتا ۔۔ صرف پختہ عزم کی ضرورت ہے ۔۔ آپ کی تقاریر تو بہت بلند پایہ اخلاق کی حامل ہوتی ہیں۔۔ لیکن ریاست میں ان باتوں پر عمل درآمد کہیں نظر نہیں آتا۔

Comments are closed.