آئینی ترمیم،نظام اور ریاستی مشینری

محمد مبشر انوار

پاکستانی سیاستدان اپنے عمل سے خود اپنی نا اہلی ثابت کرنے میں ید طولا رکھتے ہیں۔ پاکستان کی بہتر/تہتر سال کی زندگی میں یکسوئی کے ساتھ ابھی تک اس امر کا فیصلہ نہیں ہو پایا کہ پاکستان کا نظام حکومت کیا ہو گا؟پاکستان میں ظاہری و باطنی حکومت کس کی ہو گی؟پاکستانی کشتی کو بیچ منجدھار سے کنارے تک لے جانے والے کون ہوں گے؟یہاں 1956سے اختیارات کی ایک ختم نہ ہونے والی کشمکش چل رہی ہے جس میں کبھی پلڑا ایک فریق کی جانب الٹ جاتا ہے تو کبھی بظاہر دوسرے فریق کی جانب،لیکن حقیقتاً پہلے فریق کی ہی رضا و منشا پس پردہ دکھائی دیتی ہے کہ جب بھی پہلے فریق کو اپنے حق میں کسی بھی اختیار کی ضرورت پڑی،دوسرے فریق نے بلا چون و چرا،وہ اختیار پہلے فریق کو فراہم کرنے میں کسی تامل سے کام نہیں۔بلکہ اس خدمت میں کیا حکومت،کیا اپوزیشن ہر دو فریقین نے بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا۔

یوں تو دوسرے بلڈی فریق میں شامل بیشتر اراکین کی چیخ و پکار اور ہاہاکار ہر دوسرے فورم پرسنائی دیتی رہتی ہے کہ ان کے حقوق غصب ہو رہے ہیں لیکن یہی دوسرا فریق وقت قیام آنے پر کھڑا رہنا تو دور کی بات سجدے میں لیٹا نظر آتا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ بعد ازاں اپنی خدمات کے عوض،پہلے فریق کی خوشنودی حاصل کرنے میں مزید چاپلوسی و خوشامد کا رویہ اختیار کیا جاتا،مستقبل میں بھی اپنی خدمات کی ہر ممکن یقین دہانی کروائی جاتی ہے۔ یہ تمام اقدام کس لئے اور کس کی خاطر؟ایک نام نہاد اقتدار،لولی لنگڑی حکومت،گردن تک دلدل میں پھنسی ہوئی معیشت کے علاوہ نہ جانے کتنے اور آلام و مصائب لئے کانٹوں بھر ا تاج سر پرسجانے کو بے قرار نظر آتا فریق ثانی،حقیقتا قابل رحم ہے۔موجودہ حکمران اس کی واضح مثال ہیں اور پچھلی دو حکومتیں بھی بعینہ اسی طرز کی حکومت گذار چکی ہیں اور ابھی بھی ان کو موقع ملے تو ایسی ہی کارگذاری کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار نظر آئیں۔

آخر ایسے اقتدار کی خواہش کیوں اور کیسے ممکن ہے؟اس کے پیچھے ایسا کیا راز ہے کہ فریق ثانی ہر صورت اس کا حصول چاہتا ہے؟کوئی سیاسی جماعت یا قائدکارزار سیاست میں اترتا ہی اس لئے ہے کہ ایک دن اسے اقتدار کا جھولا نصیب ہو،یہ جھولا خواہ کسی بھی صورت یا فقط زندگی میں ایک ہی مرتبہ کیوں نہ نصیب ہو مگر اس کا نشہ ساری زندگی برقرار رہتاہے اور انسان باقی ماندہ زندگی اسی نشے میں گذار دیتا ہے۔اقتدار کے اس سانپ سیڑھی کھیل میں ہم نے آئین میں کبھی 58-2(b)کو حصہ بنانے اور نکالنے میں ہی ہم گذشتہ تیس برسوں میں الجھے ہوئے ہیں اور ابھی تک اس پر قائل نہیں ہو سکے کہ ہمارا آئین ہمیں کس طرز کی حکومت کا اختیار دیتا ہے۔ بہر کیف اٹھارویں آئینی ترمیم نے ایکطرف یہ معاملہ الجھایا تو اس کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے معاملات نے سر اٹھا لیا،جو آج ہمارے سامنے یوں سر اٹھائے کھڑے ہیں کہ وفاق کی سالمیت پر سوالیہ نشان اٹھے ہوئے ہیں۔ اٹھارویں آئینی ترمیم میں پیپلز پارٹی نے یہ کریڈٹ لیا تھا کہ ایک طرف اگر اس نے آئین سے اٹھاون ٹو بی کاخاتمہ کیا ہے تو دوسری طرف تہتر کے آئین کی روح کے عین مطابق صوبوں کو اختیارات دئیے گئے ہیں.

صوبوں کے مالی معاملات پر اتفاق رائے سے این ایف سی ایوارڈ کا اجراء کیا گیا ہے اور یوں تمام اختیارات کو صوبوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ اب اس سارے عمل کے بعد اصولا پورے ملک کا نقشہ بدل جانا چاہئے تھا کہ صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت کثیر رقوم ملنا شروع ہو چکی تھی لیکن بدقسمتی سے ہوا اس کے برعکس۔سنا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں یہ سرگوشیاں پھر گردش میں ہیں کہ آئین کے نین نقش درست کرنے کے لئے اس میں ضروری تبدیلیاں کرنا نا گزیر ہو گیا ہے کہ اس وقت آئین کے مطابق عملاوفاق کی عملداری فقط 25کلومیٹرکے اندر محدود ہو چکی ہے،مسائل کی بھر مار نے وفاق کو سانس تک لینے سے محروم کر رکھا ہے،وسائل کی تمام تر تقسیم دسویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد صوبوں کو منتقل ہو جاتی ہے،وغیرہ وغیرہ۔ یہاں سب سے اہم بات وفاق کی عملداری سے متعلق ہے،جسے واقعتا انتہائی فطانت کے ساتھ مفلوج کر دیا گیا ہے،جیسے پہلے سے علم ہو کہ مستقبل میں سیاسی نقشہ کیا بن سکتا ہے،آیا بڑی سیاسی جماعتوں کے لئے اقتدار تک راستہ ممکن ہو گا یا پھر انہیں علاقائی جماعتوں کی طرح صوبوں تک محدود ہونا پڑے گا؟

بد قسمتی سے آئین سازی یا قانون سازی ہمیشہ ان ہی چیزوں کو سامنے رکھ کر کی گئی کہ کسی بھی طرح اشرافیہ کے مفادات کو ٹھیس نہ پہنچے،اس کے حصول میں ملک کی کیا حالت ہوتی ہے،اس سے کسی کو کوئی سروکار نہ تھا،نہ ہے اور نہ ہی بظاہرہونے کا امکان ہے۔کہیں منی لانڈرنگ،تو کہیں لانچوں کے ذریعہ رقوم کی منتقلی، کہیں کک بیکس تو کہیں بیرونی کمپنیوں کے ساتھ سازباز اور ملکی وسائل کو باہر ہی باہر لوٹ کر ہڑپ کر لیا جاتا ہے،ایسی ہوس زر کو تو فقط قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے،جہاں انسان خالی ہاتھ ہی جاتا ہے کہ کفن میں کوئی جیب نہیں ہوتی۔

موجودہ حکومت کی کارکردگی کو دیکھیں یا اس کے مسائل کو،اس کے انداز کو دیکھیں یا اس کے اناڑی پن کو،کہیں سے بھی نہیں لگتا کہ بائیس سالہ جدوجہد میں کہیں کوئی شیڈو کابینہ رہی ہو،اس کا ادراک ہی رہا ہو،گوکہ عمران خان اپنے جلسوں میں کہتے رہے کہ ان کے وزیر خزانہ اسد عمر ہوں گے،لیکن دنیا نے دیکھا کہ اسد عمر کتنی مدت کے لئے وزیر خزانہ کے عہدے پر رہے؟عمران خان کی کابینہ میں کل کتنے وزیر تحریک انصاف کے حقیقی کارکنان ہیں اور کتنے منتخب نمائندے ہیں،سب واضح ہے۔ حکومت بر سر اقتدار تو پارلیمانی نظام کے تحت آئی ہے مگر اس کے طور طریقے کلیتا صدارتی طرز انتخاب والے ہیں اس کے باوجود محسوس ہوتا ہے کہ عمران کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں،جو خواب دکھا کر وہ اقتدار میں آئے تھے،موجودہ حالات میں ان کی تعبیر حاصل کرنا ان کے لئے نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔کیا موجودہ پارلیمان، طرز حکومت کو تبدیل کرنے کا مینڈیٹ رکھتی ہے؟

کیا اس کے اراکین اس طرز انتخاب کو تبدیل کرنے کے لئے ووٹ دیں گے(یہاں میں خود غیر یقینی کا شکار ہوں کہ ایسی اسمبلی سے کچھ بھی بعید ہے کہ وہ کچھ بھی کر سکتی ہے)، ایسی صورت میں ان سیاسی شکروں کے مفادات کا تحفظ کیونکر ممکن ہو گا؟کیا نظام کی تبدیلی کا مقصد واقعتاً ملکی مفاد ہی ہوگا یا یہ تبدیلی بھی موجودہ وزیراعظم فقط اپنی عوامی مقبولیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کرنا چاہ رہے ہیں؟ اس تبدیلی میں این ایف سی ایوارڈ کو بھی تبدیل کیا جانا مقصود ہے،جس نے واقعتاً وفاق کوصوبوں کی ضروریات پوری کرنے کی خاطر، فقط قرضوں کے حصول میں مشغول کر رکھا ہے،جبکہ محصولات کی وصولی کے وفاقی و صوبائی محکمے اپنے طے کردہ اہداف سے کہیں کم محصول سرکاری خزانے کی مد میں وصول کرپاتے ہیں۔ ان محکموں میں چھپی کالی بھیڑیں،محصولات کا بڑا حصہ وصول کرنے میں ناکام نہیں ہوتی بلکہ ذاتی تجوریوں کو بھرنے کے لئے اس کے حصے بخرے کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔

جس ملک کی ریاستی مشینری کے 23ہزار سے زائد اعلی افسران اور ان کے خاندان دہری شہریت کے حامل ہوں،اس ملک سے محصولات کی مد میں جینوئن وصولیاں کیسے ممکن ہیں؟عدلیہ ایسے مقدمات کا فیصلہ کرنے میں تامل سے کام لے،افسر شاہی کو یہ یقین ہو کہ ان کے کسی بھی غیر قانونی کام پر بازپرس ممکن نہیں،تو کیسے اور کیونکر ملک کا نظام بھرپور قوت کے ساتھ انصاف فراہم کر پائے گا؟جتنی بھی آئینی ترامیم کر لیں،کوئی بھی نظام متعارف کروالیں،سب بے کار اور بے فائدہ کہ حب تک ان پر عملدرآمد کرنے والے سیاسی اداکار اس میں حقیقت کا رنگ نہیں بھر سکتے،ریاستی مشینری دہری شہریت کی حامل ہو کر اس ملک کے قوانین پر عملدرآمد نہیں کروا سکتی کہ بیرون ملک رہائش پذیر اس کی فیملی کے اخراجات فقط سرکاری تنخواہ سے پورے نہیں ہو سکتے۔

Comments are closed.