جمہوریت قانون و انصاف کی بالا دستی سے کامیاب ہو سکتی ہے، وزیراعظم

49 / 100

اسلام آباد( زمینی حقائق ڈاٹ کام)وزیراعظم عمران خان نے واضح کیاہے کہ انصاف اور قانون کی حکمرانی کی جنگ لڑے اور جیتے بغیر صحیح جمہوریت اور خوشحالی نہیں آسکتی اور اور جب تک میں زندہ ہوں یہ جنگ لڑتا رہوں گا۔

عیدمیلاد النبیﷺ کی مناسبت سے اسلام آباد میں قومی رحمت للعالمین ﷺ کانفرس سے خطاب عمران خان کا کہنا تھاکہ انگلینڈ میں عوام کا پیسہ چوری کرنے والا پارلیمنٹ میں تو کیا میڈیا میں منہ نہیں دکھا سکتا ، انھوں کہا قومی جانتی ہے پاناما کیس میں کس طرح کے جھوٹ بولے گئے۔

عمران خان نے کہا مدینہ کی ریاست کی بنیاد بلند اخلاقی معیار اور قانون کی حکمرانی تھی، ہماری جدوجہد بھی قانون کی حکمرانی کے لیے ہے، ہم ملک کو فلاحی ریاست بنانے کی بھرپورکوشش کر رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ جلد سوا کروڑ خاندانوں کو کھانے پینے کی اشیا کے لیے رقم دیں گے، گندم پر سبسڈی دیں گے ، 90 لاکھ پاکستانی بیرون ممالک مقیم ہیں، 30 ،40 لاکھ اوور سیز پاکستانی ملک میں سرمایہ کاری کردیں تو ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت نہ پڑے۔

انھوں نے کہا ایک ایسے اوور سیز پاکستانی کو جانتا ہوں جس کے پاس اتناپیسہ ہے، جتنا ہم پر قرض ہے، پاکستان کاسسٹم اوورسیز پاکستانیوں کو وطن آنے نہیں دیتا۔

وزیراعظم نے کہا کہ اخلاقیات کو آپ بمباری سے تباہ نہیں کرسکتے، قوم وسائل سے غریب نہیں ہوتی، قانون اور انصاف کی بالادستی سے ہی جمہوریت کامیاب ہوسکتی ہے، اگر آپ کے پاس اخلاقی معیار ہے تو جمہوریت کامیاب ہوسکتی ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری نوجوان نسل کو اپنے پیارے نبی ﷺکی سیرت کے بارے میں علم ہونا چاہیے، عمران خان نے کہا کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں بلکہ فکری انقلاب سے پھیلا تھا، سوچ بدلی اور ذہن بدلے تھے۔

عمران خان نے کہا کہ تین سال اقتدار میں رہتے ہوئے مجھے حیرت ہوئی کہ اللہ نے پاکستان کو کتنی نعمتیں بخشی ہیں لیکن ہمیں اپنا راستہ ٹھیک کرنا ہے اور اس کوشش میں مجھے اور میری پارٹی کو 25 سال ہوگئے ہیں،قانون کی بالادستی سے فکری انقلاب آسکتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ملک میں جاگیردانہ نظام کو کیا فرق پڑتا ہے کہ بیرونی طاقت آکر ملک میں اپنی حکمرانی کا جھنڈا نصب کردے، اس لیے برصغیر کو فتح کرنا آسان تھا لیکن افغانستان کو فتح نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ادھر جاگیردانہ نظام نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست مدینہ میں میرٹ کی بالادستی تھی، قابلیت کی بنیاد پر لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے تھے اور اسی معاشرے میں لیڈرز پیدا ہوئے، شخصیت سازی کی بدولت صحابہ لیڈر بن گئے اور جو جنرل اچھا کام کرتا تھا وہ اوپر آجاتا تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ کرکٹ سمیت تمام دیگر شعبہ جات میں اگر لیڈر صادق و امین نہ ہو تو اس کی عزت نہیں ہوتی، مدینہ کی ریاست میں پہلی مرتبہ خواتین کو وراثت اور غلاموں کو حقوق فراہم کیے، جس طرح مغرب میں ملازمین کو رکھا جاتا ہے اور جو صورتحال یہ یہاں ہے، اس کو دیکھ کر شرم آتی ہے۔

انہوں نے برطانیہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ایک جھوٹ بولنے پر مقامی بااثر شخص کو جیل بھیج دیا گیا اور اگر میں پاناما کی بات کروں تو ہر روز نئے جھوٹ کہے گئے اور قطری خط آگیا، قطری خط 2007 میں آتا ہے اور 2006 کا فونٹ استعمال کیا جاتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ اگر انگلینڈ میں قطری خط آجاتا تو اسی وقت کیس رکنا تھا، اس طرح حلف نامے پر جھوٹ بولا گیا، برطانیہ کا عدالتی نظام اور پاکستان کے عدالتی نظام سے بہت مختلف ہے، اگر مورل اتھارٹی نہ ہو تو انصاف نہیں ہوسکتا یہاں سب کو معلوم ہے کہ سینیٹ میں بھی پیشہ چلتا ہے۔

وزیراعظم نے کہا 90 لاکھ پاکستانی بیرون ملک موجود ہے، اگر 30 سے 40 ہزار پاکستان آکر سرمایہ کاری کردیں تو آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں پڑے گی، میں ایک ایسے پاکستانی کو جانتا ہوں جس کی اتنی دولت ہے جتنا پاکستان پر آئی ایم ایف کا قرض ہے۔

عمران خان نے کہا کہ لیکن پاکستان کا سسٹم انہیں پاکستان نہیں آنے دیتا، وہ پاکستان آنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں، قوم وسائل سے غریب نہیں ہوتی بلکہ قانون اور انصاف نہ ہونے پر غریب ہوتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے ملک کے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے نوجوانوں کو صحیح راستے پر لگانا چیلنج ہے، سوشل میڈیا کے بعد نوجوانوں کو بامقصد کام میں لانا بہت بڑا چیلنج ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اکثر کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے خود کو زندگی کے مزے لے لیے اور اب ہمیں ریاست مدینہ کا درست دیتے ہیں،
انہوں نے کہا کہ رحمت اللعالمینﷺاتھارٹی کا مقصد یہ ہے کہ نوجوان نسل کو ریاست مدینہ کے اصول بتائے جائیں۔

عمران خان نے کہا کہ احساس اور کامیاب نوجوان پروگرام کے تحت نوجوانوں کو بہتر مواقع فراہم کیے جائیں گے تاکہ زندگی کے میدان میں خود کچھ کرسکیں، قرضے بلاسود ہوں گے، آئندہ برس مارچ تک پنجاب میں تمام لوگوں کو ہیلتھ کارڈز مل جائیں گے۔

وزیراعظم نے ایک بار پھربرطانیہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس معاشرے میں فحاشی بتدریج متعارف کرائی گئی، جس کا براہ راست اثر ادھر ہونے والی شادیوں اور خاندانی نظام پر پڑا اور پھر جب وہ نظام برباد ہوا تو ہمیں سمجھ آیا کہ پردے کا تصور کسی بھی معاشرے میں کیوں ضروری ہے۔

عمران خان نے کہا کہ بچوں سے موبائل فون نہیں لے سکتے، سوشل میڈیا پر پابندی نہیں لگا سکتے لیکن اپنے بچوں کو موبائل کے استعمال کے معاملے میں ان کی تربیت کرسکتے ہیں، اسکول کے اندر 9 اور 10 ویں کلاس میں سیرت نبیﷺ میں کورس شروع کیا ہے۔

Comments are closed.