نکھد“اکاؤنٹبیلٹی بیورو

شمشاد مانگٹ

نیشنل اکاونٹیبلٹی بیورو(نیب) کی جواب تک کی کارکردگی ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے اب اس کا نام”نکھد“ اکاؤنٹبیلٹی نٹیبلٹی بیورو رکھ دینا چاہئے۔نیب نے گزشتہ اڑھائی سال میں اس طرح مقدمات بنائے اور گرفتاریاں کیں کہ قوم ایسا محسوس کرنے لگی کہ اب قوم کی لوٹی گئی دولت کو واپس آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔لیکن افسوس کا مقام ہے کہ نیب کے تفتیشی افسران اور قانونی ماہرین ملزمان کی ضمانتیں منسوخ کروانے میں بھی ناکام رہے اور عدالتوں کو بھی ملزمان کیخلاف مطمئن نہ کرسکے۔

چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال نے بطور چیئرمین نیب ملزمان سے اتنے پیسے برآمد نہیں کروائے جتنے کہ انہوں نے لاپتہ افراد کی تلاش کیلئے بنائے کمشن کے سربراہ کے طور پر لاپتہ افراد کا کھوج لگایا ہے۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ دو اہم ترین کاموں کی ذمہ داری بیک وقت جسٹس(ر) جاوید اقبال کے سپرد کرنے سے ایسا لگتا ہے کہ ملک میں ”قحط الرجالی“ آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نیب نے کمزور اور لاوارث ملزمان کیلئے جلاد کا کردار ادا کیا ہے اور دل کے مریض موت کے سپرد ہونے کے باوجود نیب کی ہتھکڑیوں میں دیکھے گئے اور دوسری طرف میاں نوازشریف الزام ثابت ہونے کے باوجود ایک ایسی بیماری کے نام پر آزاد کردئیے گئے جس کا ابھی تک سراغ نہیں مل سکا۔”نکھد“ اکاؤنٹبیلٹی بیورو میاں شہبازشریف کی اربوں روپے کی کرپشن کی داستانیں سناتا رہا لیکن عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا بھی کیا اور ان کی ضمانت پر میاں نوازشریف کو باہر جانے کی اجازت بھی دی۔

”نکھد“ اکاؤنٹبیلٹی بیورو محترم مریم نواز کو بھی جیل میں نہ رکھ سکا اور اب انکی باہر جانے کی خواہش کے باعث نیب کے ہاتھ پاوں پھولے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔اسی نکمے احتساب کے دفتر کو شاہد خاقان عباسی کے سامنے بھی بے بس اور لاچار دیکھا گیا ہے اور شاہد خاقان عباسی جیل سے رہائی کے بعد جس طرح گرج برس رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انکے خلاف کرپشن کی کہانیاں فرضی تھیں۔

نیب کی ناکامیوں کا یہ سلسلہ اب بہت وسیع ہوچکا ہے اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال کے معاملے میں بھی عدالت کے روبرو نکمے تفتیشی افسران نارووال کے سپورٹس سٹیڈیم میں کرپشن کے دستاویزی ثبوت دینے میں ناکام ہوئے تو عدالت نے احسن اقبال کو بھی رہا کردیا۔ایسا ہی معاملہ رانا ثناءاللہ کے کیس میں دکھائی دیتا ہے اور اب تک کی عدالتی کارروائی سے یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ رانا ثناءاللہ کو بھی انتقامی خواہش کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اب اطلاعات آرہی ہیں خواجہ برادران بھی رہائی کے ”دھانے“ پر پہنچ چکے ہیںاور نیب والے انکے خلاف بھی ثبوت کی گٹھڑیاں احتساب عدالتوں میں پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

یہی ناکامی سابق صدر آصف علی زرداری،فریال تالپور اور خورشید شاہ کے معاملے میں صاف دیکھی گئی لیکن ”نکھد“ اکاؤنٹبیلٹی بیورو مزید انکوائریاں اور مزید ریفرنسز فائل کرنے کے”شغل“میں لگا ہوا ہے۔پنجاب سے سندھ تک جو گرفتاریاں ہوئیں ان سب کا”ریکٹرسکیل“ بنی گالہ کو گردانا گیا ہے کیونکہ گرفتاریوں سے پہلے بھی وزیراعظم عمران خان کا نعرہ تھا کہ چوروں کو نہیں چھوڑوں گا اور ضمانتوں کے بعد بھی وزیراعظم اس نعرے کو کئی بار دہرا چکے ہیں کہ چوروں کو نہیں چھوڑں گا۔

عمران خان جب تازہ تازہ وزیراعظم بنے تھے تو انکا بیان سامنے آیا تھا کہ انہیں خاتون اول بتاتی ہیں کہ آپ وزیراعظم پاکستان ہیں اور اس بات کی قوی امید ہے کہ اب بھی انہیں خاتون اول ہی بتاتی ہوں گی کہ حضور چور”فیض یاب“ ہوکر رہائی پاچکے ہیں۔اب ”نکھد“ اکاؤنٹبیلٹی بیورو نے جنگ،جیو گروپ کے سربراہ میرشکیل الرحمان کو بھی طلب کرلیا ہے اور انکی دوسری طلبی 12مارچ کو ہوگی۔میرشکیل الرحمان کے بارے میں بھی وزیراعظم کے ”اعلانات“ موجود ہیں اس لئے اگر میر شکیل الرحمان کی گرفتاری ہوئی تو وہ بھی وزیراعظم کے کھاتے میں ہی جائے گی۔

وزیراعظم عمران خان ابھی تک اس بات کا فیصلہ ہی نہیں کرسکے کہ نیب حکومت کے ساتھ ہے یا اپوزیشن کیلئے کام کر رہی ہے،کیونکہ نیب کا ہر ایکشن حکومت کے کھاتے میں جاتا ہے اور پھر نیب کے تفتیشی ماہرین طاقتور لوگوں کے خلاف عدالتوں میں بھیگی بلی بن جاتے ہیں اور ملزمان بے عزت ہونے کے بعد”باعزت“ رہا ہوجاتے ہیں۔

جنگ وجیو گروپ کے میرشکیل الرحمان کیخلاف54پلاٹوں کی الاٹمنٹ جو کیس بنایا گیا ہے اسے عدالت میں ثابت کرنا کہ یہ الاٹمنٹ غیر قانونی تھی بہت مشکل ہوگا کیونکہ اس سے پہلے آشیانہ ہاوسنگ سکیم میں کرپشن کے ڈھول بجائے گئے اور پھر خاموشی ہوگئی۔

اہم ترین سوال یہ ہے کہ اب تک وزیراعظم کیوں نہیں جان پائے کہ نیب صرف ڈھنڈورا گروپ ہے۔نیب وزیراعظم کو خوش کرنے کیلئے گرفتاریاں کرتا ہے اور پھر جب کہیں ثابت نہیں کرپاتا تو سارا ملبہ عدالتوں پر ڈال کر اپوزیشن سے داد وصول کرنے لگ جاتا ہے۔وزیراعظم جب اقتدار سے الگ ہوں گے تو انہیں پھر معلوم ہوگا کہ نیب اور ایف آئی اے کس طرح کیسز بناتا ہے اور کس طرح سہولت کار بن جاتا ہے۔وزیراعظم کا اپنا بنی گالہ والا گھر ابھی تک ریگولرائز نہیں ہوا اس کے علاوہ بھی سیاسی حکومتوں کیخلاف بہت کچھ مل جاتا ہے.

پاکستان میں نہ بھاری اکثریت کے ساتھ احتساب ہو سکتا ہے اور نہ ہی سادہ اکثریت کسی کا کچھ بگاڑ سکتی ہے۔وزیراعظم کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ انتقامی سیاست کو چھوڑ کر عوام کی خوشحالی کیلئے کام کریں وگرنہ”نکھد“ اکاؤنٹبیلٹی بیورو انکے”پلّے“ کچھ نہیں چھوڑے گا۔احتساب کی موجودہ شکل سے حکومت اور معززین شہر کی ساکھ اور چیئرمین نیب کی آخرت کو خطرات لاحق دکھائی دیتے ہیں۔

Comments are closed.