سال 2021ء میں کیا کچھ ہوتا رہا

55 / 100

تحریم اصغر

وقت کس قدر تیزی سے گزرتا ہے اس کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ جیسے ابھی کل ہی تو ہم 2021 کی آمد کا جشن منا رہے تھے اور دعا مانگ رہے تھے کہ اس سال میں کورونا جیسی وبا سے نجات ا ور خیر و برکت نازل ہو اور اب 2021 کو الوداع کر رہے ہیں۔

اسی احساس کے ساتھ بہت سی یادیں، حا ثات و واقعات ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ یہ سال کورونا وبا کے حوالے سے کم از کم پاکستان میں بہت بہتر رہا۔ مکمل تو نہیں لیکن کسی حد تک قابو پا لیا گیا۔ بہت کچھ اچھا ہونے کے ساتھ بہت سارے واقعات اور حادثات ایسے بھی ہوئے جس نے مللکی سلامتی پر سوالیہ نشان لگا دیئے۔

سال کے آغاز ہی میں ایسا اندوہناک حادثہ پیش آیا جو بائیس سالہ نوجوان اسامہ ندیم ستی کا اسلام آباد پولیس کے ہاتھوں قتل تھا، وہ بھی محض بے بنیاد شک کی بنا پر، اسی لیے عوام میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔

یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ کیا ہمارے پولیس اہلکاروں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جس کو جب چاہیں دہشتگردی کا الزام لگا کر کسی کو قتل کر دیں؟ اس صورتحال پر جو دل پر بیتی مندرجہ ذیل قطعہ اس کی عکاسی کرتا ہے۔

میں آزاد ملک کا شہری ہوں
لیکن ہرگز میں آزاد نہیں
اگر کمزور اور لاچار ہوں میں
پھر سمجھو دہشت گرد ہوں میں

فروری 2021 میں پاکستان نیوی کی چھے روزہ بین الاقوامی امن مشقوں کا انعقاد کیا گیا جس میں چین، امریکہ اور ایران سمیت چالیس سے زائد ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی جو یقیناً ایک قابلِ فخر اقدام تھا۔

پاکستان میں عورتوں کے حقوق اور عورت مارچ کا مسئلہ وہیں کا وہیں رہا۔ ہزار کوششوں اور عورت مارچ کے باوجود بھی معاشرے میں خواتین کو حقوق اور مقام کے حوالے سے اطمینان نہیں دلایا جا سکا۔

البتہ عورت مارچ اس وقت مزید متنازع ہوگیا جب مارچ کے بعد چند ایسی ویڈیوز سامنے آئیں جن پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا گیا۔ یوں یہ متنازع عورت مارچ بغیر کسی منطقی انجام کے ختم ہوگیا۔

21 اپریل کو کوئٹہ کے واحد فائیو سٹار سرینا ہوٹل کی پارکنگ میں زوردار دھماکہ ہوا۔ یہ ہوٹل حساس علاقے میں واقع تھا۔ یہ غیر ملکی سیاحوں کا مرکز بھی ہے۔ انگریزوں کی آمد سے لے کر ایک لمبے عرصے تک ٹرین کا سفر سب سے زیاد محفوظ سمجھا جاتا تھا۔

لیکن پے در پے ٹرین حا دثات نے اسے بھی غیر محفوظ کر دیا۔ 7 جون 2021 کو ایسا ہی خطرنا ک حادثہ سندھ کے ضلع گھوٹکی کے قریب پیش آیا۔ یہ حادثہ ملت اور سرسید ایکسپریس کے درمیان ہوا جس میں کم و بیش 65 افراد موقع پر ہلاک اور تقریبا 150 زخمی ہوگئے۔

گھریلو ناچاقی ہو یا دولت کی ہوس، محبت میں ناکامی ہو یا دوستی کے نام پہ دھوکہ یا قتل و غارت، ہمارے معاشرے میں عام روش بنتی جا رہی ہے۔ ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں وہاں مقتول تو مِل جاتے ہیں قاتل نہیں ملتے اور اگر مِل بھی جائیں تو قانون کے شکنجے میں آسانی سے نہیں آتے۔

ایسا ہی ایک سانحہ اسلام آباد میں ہوا۔20 جولائی کو اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی نور مقدم کو تیز دھار آلے سے گلا کاٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔ یہ سفاکیت کی انتہا تھی جب انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو اس کیس کو سوشل میڈیا پر کافی شہرت ملی۔

یومِ آزادی کے موقعے پر مینارِ پاکستان پارک میں جو کچھ ہوا، اس نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا۔ غلطی لڑکی کی تھی یا ہجوم کی، یہ یومِ آزادی کی خوشیاں غارت کرنے کی سازش تھی یا ایک حادثہ؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرتی رویئے کس طرف جا رہے ہیں؟

2021 میں ملکی سیاست میں دھرنوں کی سیاست بھی پورے زور و شور سے جاری رہی۔ تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ اور پھر اس کے امیر سعد رضوی کی گرفتاری پر کارکنوں نے احتجاج شروع کر دیا۔ اس کے بعد تحریک لبیک کی جانب سے پرتشدد مظاہرے کیے گئے۔

سپریم کورٹ نے کراچی میں تجاوزات ہٹانے کا حکم دیا۔ کثیرالمنزلہ نسلہ ٹاور گرانے کے حکم پر کافی بحث و مباحثہ ہوا۔ مکین سراپا سوال تھے کہ جنہوں نے اپنی زندگی کی جمع پونجی یہاں لگا دی وہ کہاں جائیں؟ اس طرح کی عمارات تعمیر کرتے وقت حکومت نوٹس کیوں نہیں لیتی کہ یہ غیر قانونی ہے۔ خیر ان کو معاوضے دینے پر غوروحوض جاری ہے۔

پاکستان کے سیاسی افق پر” حق دو گوادر کو” کے نعرے کی تحریک بھی چھائی رہی۔ گوادر کی عوام نے ٹرالر مافیا کے خلاف اور بنیادی حقوق کے لیے اس تحریک کا آغاز کیا جس میں خواتین نمایاں طور پر حصہ لیتی رہیں۔

سال کے آخر میں ایک شرمناک حادثہ شہرِ اقبال سیالکوٹ میں پیش آیا۔ غیر ضروری طور پر مشتعل ہجوم نے ایک سری لنکن شہری کو توہین رسالت کا الزام گا کر قتل کردیا اور پھر لاش کو آگ لگا دی۔ اس سے جہاں بین الاقوامی سطح پر ملکی تشخص پامال ہوا وہیں یہ حادثہ معاشرے میں بڑھتی جذباتیت ، جہالت، تشدد پسندی کا واضح اظہار تھا.

روزگاری کے ساتھ ساتھ بہت سے نشیب و فراز آتے رہے لیکن ساتھ ہی یہ سال اپنے ساتھ کئی قیمتی ہیرے نگل گیا۔ علم و ادب سے تعلق رکھنے والے ” اندھیرا اجالا ” جیسے شاہکار ڈراموں کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طارق عز یز اور وحید الدین خان کے علاوہ شوبز انڈسٹری کے کئی درخشندہ ستارے کامیڈی کنگ عمر شریف، دردانہ بٹ، حسینہ معین، فاروق قیصر عرف انکل سرگم ، انور اقبال بلوچ ، سنبل شاہد، اعجاز درانی ، نائلہ جعفری اور سہیل اصغر جیسے فنکار مداحوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ آیئے دعا کرتے ہیں کہ نیا آنے والا سال ملک کے لیے خیر اور سلامتی لے کر آئے۔

Comments are closed.