وزیراعظم مختصر نوٹس پر عدالت پیش، روسٹرم پر جوابات دئیے

50 / 100

اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام)وزیر اعظم عمران خان سپریم کورٹ طلبی کے مختصر نوٹس پر عدالت پیش ہو گئے اور روسٹرم پر کھڑے ہو کر عدالتی سوالات پر جوابات دیئے.

سپریم کورٹ نےسانحہ آرمی پبلک اسکول از خود نوٹس کیس میں وزیراعظم کو طلب کیا تھا عدالت کے روبرو وزیراعظم نے کہا کہ میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں، ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے، آپ حکم کریں، ہم ایکشن لیں گے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے وزیرِ اعظم کو روسٹرم پر بلا لیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ شہدائے اے پی ایس کے والدین کو مطمئن کرنا ضروری ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اس وقت کے حکام کے خلاف کارروائی ہو۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے روسٹرم پر کھڑے ہو کر کہا کہ میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں، عمران خان نے کہا کہ جب سانحہ ہوا تو صوبے میں ہماری حکومت تھی، صوبائی حکومت جو بھی مداوا کر سکتی تھی کیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ شہداء کے والدین کہتے ہیں کہ ہمیں حکومت سے امداد نہیں چاہیئے، وہ سوال کرتے ہیں کہ پورا سیکیورٹی سسٹم کہاں تھا؟ ہمارے واضح حکم کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے جواب دیا کہ سانحے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی، اس وقت ہر روز خود کش حملے ہو رہے تھے، جسٹس قاضی امین نے کہا کہ آپ ہمارے وزیرِ اعظم ہیں، آپ کا احترام کرتے ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے عمران خان سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ وزیرِ اعظم ہیں، جواب آپ کے پاس ہونا چاہیئے، وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ 1 منٹ جج صاحب! آپ ٹھہر جائیں، بچوں کے والدین کو اللّٰہ صبر دے گا.

وزیراعظم نے کہا ہم معاوضہ دینے کے علاوہ اور کیا کر سکتے تھے؟ میں پہلے بھی ان سے ملا تھا، اب بھی ان سے ملوں گاوزیرِ اعظم نے کہا کہ یہ پتہ لگائیں کہ 80 ہزار افراد کس وجہ سے مارے گئے، یہ بھی پتہ لگائیں کہ 480 ڈرون حملوں کا ذمے دار کون ہے۔

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے وزیرِ اعظم عمران خان سے کہا کہ یہ سب پتہ لگانا آپ کا کام ہے، آپ وزیرِ اعظم ہیں، بطور وزیرِ اعظم ان سارے سوالوں کا جواب آپ کے پاس ہونا چاہیئے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ شہدائے اے پی ایس کے لواحقین کا دکھ ہے تو 80 ہزار لوگوں کا بھی ہمیں دکھ ہے، آپ اے پی ایس کے معاملے پر اعلیٰ سطح تحقیقاتی کمیشن بنا دیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کمیشن بنا چکے ہیں، رپورٹ آ چکی ہے، 20 اکتوبر کا ہمارا حکم ہے کہ ذمے داروں کا تعین کر کے کارروائی کریں۔

اس موقع پر جسٹس قاضی امین نے کہا کہ مسٹر پرائم منسٹر! آپ مجرمان کو ٹیبل پر مذاکرات کے لیے لے آئے ہیں، کیا ہم ایک بار پھر سرینڈر ڈاکیومنٹ سائن کرنے جا رہے ہیں؟ساتھ ہی چیف جسٹس نے سوال کیا کہ وزیرِ اعظم صاحب! آپ نے عدالت کا حکم نامہ پڑھ لیا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 2014ء میں سانحہ پیش آیا، جسے 7 سال گزر چکے ہیں، اس کی رپورٹ 2019ء میں سامنے آئی، جن کی ذمے داری تھی ان کا احتساب نہیں کیا گیا، ہم نے اٹارنی جنرل کو ہدایات لینے کا حکم دیا تھا، والدین کے تحفظات دور کرنے کے لیے حکومت نے کیا کیا؟

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ جس دن سانحۂ اے پی ایس رونما ہوا کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی، واقعے کے دن ہی میں پشاور پہنچا اور بچوں اور ان کے والدین سے ملا، اسپتال جا کر زخمیوں سے بھی ملا، اس وقت ماں باپ سمیت پوری قوم صدمے میں تھی.

انھوں نے عدالت کو بتایا کہ واضح کر دوں کہ جو ازالہ کر سکتے تھے کیا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ والدین کو ازالہ نہیں اپنے بچے چاہیئے تھے، آخری آرڈر میں ہم نے باقاعدہ نام دیئے تھے، ان کا کیا ہوا؟ آپ پاور میں ہیں، حکومت بھی آپ کی ہے.

چیف جسٹس نے کہا ہم کوئی چھوٹا ملک نہیں، دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہماری ہے، آپ نے کیا کیا؟ انہی مجرموں کو آپ مذاکرات کی میز پر لے آئے، چیف جسٹس نے کہا کہ ان دہشت گردوں نے ہمارے بچوں کے گلے کاٹے، ان کا جو دل کیا وہ بچوں کے ساتھ کرتے رہے اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا.

اس وقت کی حکومت، انٹیلیجنس اور آرمی کے کرتا دھرتا مراعات لے کر چلے گئے، ہماری دنیا کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ایجنسی ہے، سانحۂ اے پی ایس کے وقت ہماری انٹیلی جنس ایجنسیز کہاں تھیں؟ ایجنسی اور فوج کے کرتا دھرتا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی.

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اے پی ایس کے سانحے کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں کا ٹارگٹ بچے ہونا آسان ہدف تھا، رپورٹ کے مطابق آسان اہداف کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیئے گئے تھے، آسان ہدف کو تحفظ نہ دینا حکومت کی بڑی ناکامی تھی، بتائیں یہ سانحہ اے پی ایس کس نے ہونے دیا؟

چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ آئین ریاست پر ذمے داری عائد کرتا ہے کہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے، ریاست نے شہریوں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیئے ہیں؟

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب! اگر آپ نے مجھے بلایا ہے تو مجھے بولنے کا موقع بھی دیں، میں اس وقت حکومت میں نہیں تھا، اٹارنی جنرل نے بتایا ہے کہ اس وقت کے عہدے داران پر کرمنل نہیں اخلاقی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔

وزیرِ اعظم نے کہا کہ جنرل مشرف نے طالبان کے ساتھ پریشر میں آ کر جنگ شروع کر دی، ہمارا نائن الیون کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، نائن الیون میں کوئی پاکستانی بھی ملوث نہیں تھا، ہم نے واقعے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا، دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی۔

عمران خان نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کو بہتر کر کے نیشنل کوآرڈینیشن پلان بنایا، افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد داعش، ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند پاکستان آ گئے، طالبان حکومت کے بعد ڈھائی لاکھ لوگ پاکستان کے راستے باہر گئے، دہشت گرد ان ڈھائی لاکھ لوگوں کی آڑ میں روپوش ہو گئے.

انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ہماری ساری سیکیورٹی ایجنسیز ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ابھی تک یہ سمجھ آیا ہے کہ جو ہونے والا ہے اس کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، جو ہو رہا ہے اس کے لیئے اقدامات نہیں کیئے گئے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ افغان صورتِ حال کی وجہ سے خطرات ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مسائل موجود ہیں، ہم نے آپ کو لوگوں کے نام دیئے، اٹارنی جنرل سے کہا کہ اعلیٰ سطح کی کمیٹی سے پوچھیں کہ ان ناموں کا کیا ہونا ہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا نے یہ بھی کہا کہ ہم آپ سے یقین دہانی چاہتے ہیں کہ آپ کارروائی کریں گے، چاہتے ہیں کہ شہداء کے والدین کو تسلی ہو کہ عدالتیں اور حکومت سانحۂ اے پی ایس کو نہیں بھولے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ انصاف کی جو تحریک 25 سال چلائی ہے، اسی پر قائم ہوں، کوئی بھی قانون سے ماورا نہیں ہے، آپ حکم کریں ایکشن لیں گے۔سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ حکومت شہدائے سانحۂ اے پی ایس کے والدین کا مؤقف لے کر کارروائی کرے.

وزیرِ اعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی یقین دہانی کرائی، بعدازاں سپریم کورٹ نے 20 اکتوبر کے حکم نامے پر عمل درآمد کی ہدایت کرتے ہوئے سانحۂ آرمی پبلک اسکول از خود نوٹس کیس کی سماعت 4 ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔

اس سے قبل وزیرِ اعظم عمران خان کی
طلبی کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ آج ہی پیش ہونے کا حکم دیا تھا، یہ حکم اٹارنی جنرل خالد جاوید کے اس موقف پر دی گئی جس میں عدالت کو بتایا گیا کہ اعلیٰ حکام کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی.

Comments are closed.