متحدہ عرب امارات، اسرائیل تعلقات کی پس پردہ کہانی

افتخار گیلانی

امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ کی ایما پر متحدہ امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرکے باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کرکے بین الاقوامی سیاست میں دھماکہ تو کردیا، مگر مبصرین ابھی بھی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، کہ آیا امارات کو اس طرح کا قدم اٹھانے کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی۔ اسرائیلی اخبار حاریٹز کے مدیر زیوی بارمل کے مطابق مصر او ر اردن کے برعکس امارات کو امریکی امداد کی نہ کسی ایسی ٹیکنا لوجی کی ضرورت تھی، جو وہ پیسوں سے خرید نہ سکتا تھا۔ حال ہی میں یمن کی جنگ سے تنگ آکر امارات نے سعودی اتحاد سے کنارہ کشی کرکے ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اسی دوران اسرائیل کو تسلیم کرکے اس نے ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے والی پالیسی اختیار کرکے دوبارہ ایران کے ساتھ ایک طرح سے کشیدگی مول کر خطے میں مزید پیچیدگیاں پیدا کردیں۔

13 اگست کو اسرائیل اور متحدہ امارات کے درمیان طے پائے گئے معاہدے کے بعد جو مشترکہ بیان جاری ہوا ہے، اسکا بغور تجزیہ کرکے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے خالق خاصے عجلت میں تھے۔ بیان میں مشرق وسطیٰ کے اصل تنازعہ فلسطین کا کہیں ذکر تک نہیں ہے۔ بس زبانی بتایا گیا کہ اسرائیل مغربی کنارہ اور وادی اردن کو ضم کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کریگا۔ یہ خوش فہمی چند گھنٹوں کے بعد ہی اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے دور کردی۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی کوئی یقین دہانی نہیں دی گئی ہے۔ اس میں سابق سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کے فارمولہ کا بھی ذکر نہیں ہے، جس کو اتفاق رائے سے عرب لیگ نے 2002میں منظور کرکے رکن ممالک کو تاکید کی تھی کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے اس فارمولہ کے اطلاق کویقینی بنایا جائے اور تعلقات کو اسکے ساتھ مشروط کیا جائے ۔ اس بیان میں فلسطینی اور اسرائیلی رہنماوں کے درمیان طے پائے گئے اوسلو ایکارڈ کے مندرجات کو لاگو کرنے کی بھی کوئی یقین دہانی نہیں ہے۔

ہاں بین السطور اسرائیل نے یہ وعدہ ضرور کیا ہے کہ یروشلم یا القدس شہر کی عبادت گاہوں ،بشمول مسجد الاقصیٰ اور گنبد صخرا دنیا بھر کے ’’پرامن ‘‘مسلم زائرین کیلئے کھولا جائیگا۔ یعنی مسلمانوں کا حق عبادت تسلیم کیا گیا ہے۔ مگر چونکہ زائرین کو ا سرائیلی امیگریشن سے گذرنا ہوگا، اسلئے اسرائیلی ویزا اور اجازت کی بھی ضرورت پڑے گی اور صرف ان ہی ممالک کے مسلمان زیارت کیلئے آسکیں گے، جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوں گے۔ اور پھر اسرائیلی سفارت خانے کو حق حاصل ہوگا کہ ’’پرامن‘ کی اصطلاح کا استعمال کرکے اجازت کی درخواست مسترد بھی کریں گے۔ اگر امارات کے حکمران اسی شق کو ہی ٹھیک طرح سے معاہدہ میں شامل کرواتے اور اردن کے ویزا پر عمان کے راستے ، مسجد اقصیٰ کی زیارت کی اجازت حاصل کرواتے، تو شاید مسلم دنیا ان کی احسان مند رہتی اور ہر سال لاکھوں مسلمانوں کے القدس وارد ہونے سے فلسطینیوں کی ہمت بندھ جاتی او رانکی اقتصادی صورت حال بھی بہتر ہوجاتی۔

باوثوق ذرائع کے مطابق امارات اور اسرائیل کے درمیان خفیہ تعلقات کا آغاز اصل میں 2008میں اسوقت ہوا تھا ، جب اقوام متحدہ نے بین الاقوامی تجدید توانائی ایجنسی کے صدر دفتر کو ابوظہبی کے پاس مصدر شہر میں قائم کرنے کی منظوری دیدی۔ اقوام متحدہ کی ذیلی ایجنسی کے بظاہر ایک بے ضرر سے دفتر نے ، جس کا سیاست کے ساتھ دو ر دور تک کا واسطہ بھی نہیں تھا، برسوں تک اسرائیل اور امارات کے افسران کو ملنے اور بیک چینل سفارت کاری کیلئے ایک نہایت عمدہ کور فراہم کیا۔ چونکہ اسرائیل بھی اس ایجنسی کا ممبر تھا، اسلئے تل ابیب کو انرجی کے حوالے سے اپنا ایک مستقل نمائندہ ابوظہبی میں تعینات کرناپڑا۔ 2015میں اسرائیلی وزارت خارجہ میں ڈائریکٹر جنرل ڈور گولڈ کی قیادت میں ایک سرائیلی وفد نے دوبئی کا دورہ کیا ۔ چونکہ یہ دورہ اعلانیہ طور پر کیا گیا تھا، اسی لئے دونوں ملکوں نے بیانات داغے کہ اس دورہ کا دونوں ملکوں کی سیاسی پوزیشن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

ذرائع نے راقم کو بتایا کہ امارات کو اسرائیل اور امریکہ میں یہودی لابی کی ضرورت کا احساس 2006میں اسوقت ہوا تھا، جب امارات کے دوبئی ورلڈ پورٹ نے چھ امریکی بندرگاہوں کا انتظام و انصرام سنبھالنے کیلئے ٹینڈر بھرا تھا۔ اس پر امریکی کانگریس میں خاصا ہنگامہ برپا ہوا۔ کئی کانگریس اراکین نے نیویار ک ، بالٹی مور اور میامی جیسے حساس پورٹ کسی عرب کمپنی کو دینے کی بھر پور مخالفت کی اور دلیل دی کی اس سے امریکی اور اسکے اتحادیوں کی سلامتی خطرے میں پڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ گو کہ امارات نے ٹینڈر واپس لے لیا، مگر یہ اس کے حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ تھا کہ آخر امریکی اتحادی ہونے اور گلف میں اسکو پوری سہولیات دینے کے باوجود امریکی کانگریس اور انتظامیہ میں اس قدر بدگمانی کیوں ہے؟ ان ہی دنوں امارات نے اقوام متحدہ کی نو زائیدہ قابل تجدید توانائی ایجنسی یعنی IRENAکے صدر دفتر کو ابوظہبی میں قائم کرنے کی پیشکش کی تھی۔ مگر اب خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ امریکی کانگریس کے اراکین ایجنسی کے صدر دفتر کو امارات میں قائم کرنے کی بھی مخالفت کرسکتے ہیں۔

طے پایا گیا کہ واشنگٹن میں کسی لابی فرم کی خدمات حاصل کی جائیں، جس نے بعد میں امارتی حکمرانوں کا رابطہ امریکہ میں طاقتور یہودی لابی یعنی امریکین جیوش کمیٹی یعنی اے جے سی سے کروایا۔انہی دنوں بھارت نے بھی اسرائیل کی ایما پر اسی کمیٹی کی خدمات امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدہ طے کرنے اور اسکو کانگریس کی رضامندی حاصل کرنے کیلئے حاصل کی تھی۔ 2008میں امریکی کانگریس نے جوہری قانون میں ترمیم کرکے بھارت کیلئے جوہری ٹیکنالوجی فراہم کرنے کیلئے راستہ ہموار کردیا۔ اے جے سی نے نہ صرف اقوام متحدہ کی ایجنسی کا صدر دفتر ابو دھبئی میں کھولنے میں مدد کی، بلکہ 2009 میںامریکی کانگریس سے امارات کو بھی جوہر ی ٹیکنالوجی فراہم کروانے کیلئے بھارت ،امریکی نیوکلیر ڈیل کی طرز پر منظوری دلوانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ جس کے بعد کوریا کی ایک فرم کے اشتراک سے امارات نے 30بلین ڈالر کے نیوکلیر پروگرام کی داغ بیل ڈالی، جو اب تیار ہونے کے بلکل قریب ہے۔

وکی لیکس میں تل ابیب میں امریکی سفارت خانے کے سیاسی مشیر مارک سیورز کی 2009کی ایک کیبل کا تذکرہ ہے، جس میں وہ خلیجی ممالک اور اسرائیل کے درمیان خفیہ روابط کا انکشاف کر رہے ہیں۔ خاص طور پر اس کیبل میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی وزیر خارجہ زیپی لیونی اور امارت کے اس کے ہم منصب کی بند کمروں میں اکثر ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ 2010میں تاہم دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہوگئے، جب اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے دوبئی کے ایک ہوٹل میں حمص کے لیڈر محمود الما بحوح کو قتل کردیا، اس سے قبل ان کو زہر دینے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔ اسرائیلی صحافی لوسی ملمین کے مطابق اماراتی حکمران اس لئے ناراض ہوگئے کیونکہ یہ قتل ایسے وقت کیا گیا ، جب اسرائیلی سفارت کار برلوس کاشدان ا مذاکرت میں مصروف تھے اور اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ موساد کا قاتل دستہ تلاشی وغیرہ سے بچنے کیلئے سفار ت کار کے وفد کے ساتھ ہی دوبئی وارد ہو گیا تھا۔ مگر امریکی کانگریس اراکین کی پذیرائی حاصل کرنے اور ٹیکنالوجی کے حصول کی خاطر امارتی حکمرانوں نے یہ تلخ گھونٹ جلد پی لیا۔

2016میں جب ڈونالڈ ٹرمپ کو ریپبلیکن پارٹی نے صدارتی امیدوار نامزد کیا، تو ولی عہد محمد بن زید النہیان نے ٹرمپ کے یہودی داماد جیرالڈ کوشنر کے ساتھ انتخابات سے قبل ہی تعلقات استوار کر لئے تھے۔حتیٰ کہ نیویارک میں کوشنر سے ملاقات کی خاطر ولی عہد اور ان کے برادر عبداللہ بن زید نے امریکی صدر بارک اوبامہ کے ساتھ طے شدہ میٹنگ منسوخ کی۔ بتایا جاتا ہے کہ امارتی ولی عہد نے ہی امریکیوں کو قائل کیا کہ سعودی عرب میں محمد بن سلمان کی پشت پناہی کرکے سی آئے کے چہیتے محمد بن نائف کو ولی عہد کے عہدے سے معزول کرنے کے فیصلہ کی حمایت کریں۔ اس طرح 2018 تک اسرائیل کے کئی وزیروں نے امارات کے دورے کئے، مگر ہر بار بتایا جاتا تھا ، کہ ان کا دونوں ملکوں کی سیاسی پوزیشن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی سال اسرائیلی وزیر خارجہ یسرائیل کارٹز بغیر پیشگی اطلاع ابوظہبی پہنچ گئے اور ایران کے خطرات سے امارتی حکمرانوں کو آگاہ کرکے تعاون کی پیشکش کی۔ اسرائیل کے عبرانی زبان کے اخبار یسرائیل حایوم کے مطابق خود نیتن یاہو بھی اسرائیلی سیکورٹی کونسل کے سربراہ میئر بن شابات کے ہمراہ دوبا ر امارات کا خفیہ دورہ کرچکے ہیں۔ اس دوران امارات نے تیل تنصیبات کی سیکورٹی کیلئے اسرائیل کی ایک فرم اے جی ٹی انٹرنیشنل کو 800ملین ڈالر کا ٹھیکہ دے دیا ۔

خیر متحدہ امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے سے اس خدشہ کو تقویت پہنچتی ہے کہ عرب حکمران اپنے آپ کو کس قدر غیر محفوظ، غیرمستحکم اور کمزور محسوس کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ امریکہ اور خطے میں اس کا قریب ترین اتحادی اسرائیل ہی ان کی بقاء کا ضامن ہے۔ مگر بین الاقوامی سیاست اور تزویراتی حکمت علمی کے قواعد ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل ان کی کمزوری کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا کر ان کو عوامی تحریکوں و پڑوسیوں سے مزید خائف کرواکے اپنے مفادات کی تکمیل کرینگے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عرب حکمران اپنے ضمیر اور عوام کی آواز پرکان لگا کر پڑوسی اسلامی ممالک کے ساتھ اشتراک کی راہیں نکال کر اسرائیل اور امریکہ کو مجبور کرکے فلسطینی مسئلہ کا حل ڈھونڈ کر خطے میں حقیقی اور دیرپا امن و امان قائم کروانے میں کردار ادا کرتے۔

(بشکریہ افتخار گیلانی فیس بک، افتخار گیلانی نامور کشمیری صحافی اور کالم نگار ہیں )

Comments are closed.