! شرم آرہی ہے

ارشاد بھٹی

پہلا منظر، نواز شریف صاحب کی کبھی کسی سے نہ بن پائی، جنرل آصف نواز کو آرمی چیف لگایا مگر بن نہ سکی، جنرل وحید کاکڑ سے بن نہ سکی، جہانگیر کرامت سے بن نہ سکی، جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف لگایا مگر بن نہ سکی، جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف لگایا مگر بن نہ سکی، جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف لگایا مگر بن نہ سکی، باقی چھوڑیں، ثاقب نثار کو جج بنوایا مگر بن نہ سکی، جسٹس جاوید اقبال کو چیئرمین نیب بنانے کی حتمی منظوری دی مگر بن نہ سکی۔

یہاں یہ بھی سن لیں، چیف الیکشن کمشنر خود لگایا، سارے ممبر خود لگائے، آر ٹی ایس ٹیکنالوجی لائے لیکن الیکشن کمیشن سے بھی نہ بن پائی، کیونکہ ہار گئے تھے۔ دوسرا منظر، میاں صاحب نے کبھی کسی سے وفا نہ کی، محمد خان جونیجو کو دھوکہ دیا، بینظیر بھٹو کو فارغ کروایا، فاروق لغاری کو چلتا کیا، غلام مصطفیٰ جتوئی کا پتا صاف کیا، غلام اسحٰق کا کام تمام کیا، آصف زرداری کو عین مشکل لمحوں میں چھوڑا۔

تیسرا منظر، جب جب اقتدار ملا پیچھے کوئی ہاتھ، جب جب اپوزیشن کاٹی پیچھے کوئی ہاتھ، جب جب کوئی سیاسی جدوجہد کی پیچھے کوئی ہاتھ، جب جب کوئی احتساب یا سزاہوئی، پیچھے ایسا ہاتھ کہ نتیجہ انوکھا ریلیف، ساری عمر ایمپائروں سے مل کر میچ کھیلے، عمر بھر بیساکھیاں استعمال کیں، جو کچھ اپوزیشن میں کہا وہ اقتدار میں آکر بھول گئے، جو کچھ اقتدار میں کیا، اس سے اپوزیشن کا دور کا کوئی تعلق نہیں۔ کئی دفعہ انقلابی ہوئے مگر اقتدار ملا، کام نکل گیا، لین دین ہو گیا، انقلاب، مزاحمت کو سلا دیا۔ چوتھا منظر، باتیں منڈیلا والی مگر عادتاً تاجر، خاص ماحول، خاص ٹمپریچر کے علاوہ رہ نہیں سکتے، خاص ذائقے مطلب چند باورچیوں کے علاوہ مسلسل دوسرے دن کھانا نہیں کھا سکتے۔

پانچواں منظر، نصیب ایسا کہ سپریم کورٹ سے نااہل ہوئے، ہائی کورٹ سے اشتہاری ہوئے، احتساب عدالت سے سزا ہوئی مگر لیڈریاں قائم، پیسہ آیا کہاں سے، پیسہ کمایا کہاں سے، بچے کیسے ارب پتی ہو گئے، نگر نگر جائیدادیں کہاں سےکس طرح بنائیں، کسی سوال کا جواب نہیں مگر لیڈریاں قائم، دن دیہاڑے بات کرکے مکر جائیں، منہ پر جھوٹ بول جائیں، وعدوں سے پھر جائیں، جب چاہیں رستہ بدل جائیں مگر لیڈریاں قائم۔

چھٹا منظر، جب بھی موقع ملا، جمہوریت کو کمزور کیا، مگر جمہوریت کے چیمپئن، قول جمہوری نہ فعل، فیصلے جمہوری نہ مزاج مگر جمہوریت کے چیمپئن۔

ساتواں منظر، زندگی میں دو آمر آئے، ضیاء اور مشرف، ضیاء الحق کی چھتر چھایہ میں سیاسی ہوئے، ضیاء کی انگلی پکڑ کر چلنا شروع کیا، مشرف سے ڈیلیں کیں، ڈھیلیں لیں مگر باتیں سنیں تو لگے اسکول دور سے ہی فوجی آمروں کیخلاف سرگرم عمل، باتیں سنیں تو لگے ان کا وجود مبارک نہ ہوتا تو اس وقت بھی ملک میں آمریت ہوتی۔

آٹھواں منظر، ریاست کے اندر ریاست، ریاست کے اوپر ریاست، ریاست کے درمیان ریاست، ریاست کے نیچے ریاست، سب کے یہ بانی، سیاست میں چھانگوں مانگوں کے یہ بانی، سیاست میں پلاٹ، پرمٹ، نوٹوں کی چمک، خریدوفروخت، لین دین، بھاؤ تاؤ کو اِنہوں نے عروج پر پہنچایا۔

نواں منظر، پارٹی میں کبھی کسی کو ایک خاص حد سے آگے نہ آنے دیا، ایک خاص حد سے زیادہ کسی کا قد نہ بڑھنے دیا، پارٹی کو ہمیشہ جمہوریت سے بچا کررکھا۔ دسواں منظر، جب بھی مشکل وقت آیا، پتلی گلی سے نکل گئے، جب بھی اوکھے لمحے آئے اپنے اور اپنے خاندان کے علاوہ کوئی یاد نہ رہا۔

گیارہواں منظر، آئین وقانون کی ایسی پاسداری کہ سپریم کورٹ پر حملہ کیا ،جج مینج کئے، فوج سے ایسی محبت کہ ہر دور میں فوج پر چڑھائیاں، نظام کی ایسی مضبوطی کہ سرکاری اداروں کو ذاتی ملازموں، ذاتی وفاداروں سے بھردیا، فطرتاً ایسے جمہوری کہ 90فیصد فیصلوں سے پارلیمنٹ، کابینہ بےخبر، چھ چھ ماہ اسمبلی، سال سال سینیٹ نہ آئے۔

بارہواں منظر، پاکستان کے واحد خوش بخت جو 3 دفعہ وزیراعظم بنے، پاکستان کے واحد خوش بخت جنہیں مجرم ہو کر اندرون و بیرون ملک دو طبی ریلیف ملے، پاکستان کے واحد خوش بخت جن کیلئے عدالتوں میں فل ڈے سماعتیں ہوئیں، جن کیلئے میڈیا نے بال ٹو بال کمنٹری کی، جن پر مخالف حکومت کو رحم آیا، پاکستان کے واحد خوش بخت، جن کا ہوم میڈ بیانیہ، ہوم میڈ انقلاب، پاکستان کے واحد خوش بخت جن کی سویلین بالادستی سے مراد اپنی بالادستی، جن کے ووٹ کو عزت دو سے مطلب اپنے اور اپنے خاندان کی عزت۔تیرہواں منظر، انسانی وطبی بنیادوں پر رحم کھا کر لندن علاج کیلئے بھیجا گیا، وہاں نجانے کیا علاج ہوا، عجیب وغریب باتیں کررہے۔

یہ ضمانت پر تھے، اب خیر سے اشتہاری ہو چکے، یہ کل تک ایسے چپ تھے کہ لگتا تھا منہ میں زبان نہیں، اچانک اتنا اور ایسا بولے کہ تقریروں پر پابندی لگی، کل تک خاموش تھے، پوچھا جاتا خاموش کیوں تو احسن اقبال جیسے کہتے، وہ لندن علاج کروانے گئے ہیں، سیاست کرنے نہیں، شاہد خاقان عباسی جیسے فرماتے، جب وہ وہاں علاج کروانے گئے تو انہیں وہاں اخلاقی طور پر سیاست نہیں کرنی چاہئے۔

لیکن آج احسن اقبال، عباسی صاحب سمیت سب وڈیو لنکی درشنوں پر اُٹھ اُٹھ استقبال کر رہے، تقریریں سن سن جھوم رہے، میاں صاحب کی سیاسی برکتیں آگے پھیلا رہے۔ چودہواں منظر، کل نواز شریف کہا کرتے، مشرف آمر درد کا بہانہ بنا کر بھاگ گیا، کوئی ہے جو اسے لائے، مریم نواز کہا کرتیں، پرویز مشرف بزدل، کمر درد کا بہانہ بنا کر چلا گیا، کسی منصف میں ہمت ہے جو اسے واپس لائے، آج یہی کچھ مریم نواز اور نواز شریف کو سننا پڑرہا۔ پندرہواں منظر، اسلام آباد ہائی کورٹ کہہ چکا، نواز شریف حکومت، عوام کو دھوکہ دے کر گئے، نواز شریف کا جانا پورے نظام کی تضحیک، ملزم لندن میں بیٹھ کر حکومت، عوام پر ہنستا ہوگا۔

یہ ایک شرمناک طرز عمل، سولہواں منظر اور یہ منظر سب منظروں پر بھاری، ایک نااہل، سزا یافتہ اور اشتہاری ہماری فوج، عدلیہ پر لشکر کشی کئے بیٹھا اور اسے جمہوریت کہا جارہا، جو لہجہ، جو زبان، جو گفتگو، جو قول وفعل کا تضاد، جو جھوٹ، جو مکروفریب، جو مظلومیت کارڈکھیلا جا رہا، یقین جانیے، شرم آرہی کہ یہ ہے ہماری سیاست، یہ ہے ہماری جمہوریت اور یہ ہے (بشکریہ روزنامہ جنگ)ہمارا 3 دفعہ کا وزیراعظم۔

Comments are closed.