رقصِ ابلیس

شمشاد مانگٹ

عام انتخابات میں صرف پانچ دن باقی ہیں اور یہ الیکشن اپنی اہمیت کے اعتبار سے ملک کے اہم ترین الیکشن قرار دیئے جا رہے ہیں۔ در حقیقت یہ الیکشن دو ایسے طبقات کے درمیان ہیں جو اپنی اپنی سوچ کے اعتبار سے ایک دوسرے سے شدید تصادم کی حالت میں ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جو پاکستان سے والہانہ لگاؤ رکھتا ہے اور اسے تاقیامت قائم ودائم دیکھنا چاہتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ بھی پاکستان سے محبت ضرور رکھتا ہے لیکن اس طبقے کی قیادت کرنیو الے لوگ عالمی کٹھ پتلیوں کا کردار ادا کرر ہے ہیں۔

گزشتہ دنوں روزنامہ ڈان کے اخبار کے مالک حمید ہارون کے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو نے عالمی ایجنڈے کے کئی پول کھول دیئے ہیں اور انہوں نے اس انٹرویو کے دوران یہ تسلیم کیا کہ ڈان لیکس کا مواد انہیں انٹرنیشنل کھلاڑیوں کے تعاون سے ملا تھا۔ اگرچہ قومی سیاست میں ڈان لیکس بارے رپورٹ ابھی بھی ایک سلگتی ہوئی چنگاری کی حیثیت رکھتی ہے اور کسی وقت بھی یہ رپورٹ ایک دھماکے کے ساتھ پھٹ سکتی ہے۔ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے پاکستانی ایجنٹ بھرپور طریقے سے پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں پر چڑھائی کئے ہوئے ہیں۔

چونکہ عالمی قوتوں کا ایجنڈا ہی پاکستان کو کمزور کرنا ہے اس لئے پہلے فیز میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ا یجنٹوں نے پاکستان کو معاشی طور پر دیوالیہ کیا ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انکے ایجنٹ اربوں روپے لوٹ کر بیرون ملک جائیدادوں کے انبار لگا چکے ہیں اور یہ اسی لوٹ مارکا نتیجہ ہے کہ پاکستان خطِ غربت سے مزید نیچے چلا گیا ہے اور ایشیائی ملکوں میں اب صرف سری لنکا باقی ہے جہاں کی مقامی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں زیادہ بے قدر ہو چکی ہے۔

درحقیقت عالمی اسٹیبلشمنٹ کو پچھلی چند دہائیوں سے اپنے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کے لئے پاکستان میں ایسے کرپٹ عناصر کے سر پر ہاتھ رکھنا پڑا جو نہ صرف ذاتی اثاثے بنانے کی شدید ہوس رکھتے تھے بلکہ عالمی بینک اور دیگر اداروں سے لئے گئے قرضوں کے درست استعمال سے بھی ناواقف تھے۔ پاکستانی معیشت کا دیوالیہ کر کے لندن کی سڑکوں پر صحت مند چہل قدمی کرنے والا اسحاق ڈار ایسی ہی ایک کٹھ پتلی ہے۔ پاکستانی اداروں کے لئے بہت مشکل ہے کہ اسحاق ڈار جیسے مکار شخص کو بلیک وارنٹ یا ریڈ وارنٹ کے ذریعے واپس لے آئیں۔ اسحاق ڈار جن کے لئے کام کرتے تھے وہی انہیں اٹھا کر لے گئے۔

مزید برآں پاکستان کو بد امنی اور دہشتگردی میں جھونک دینے کے لئے عالمی سامراج نے اپنے ایجنٹوں کو عدلیہ اور فوج مخالف بیانیہ دیکر میدان میں اتار دیا ہے۔
پاکستان میں موجود عالمی اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلیاں اپنے آقاؤں کی نظرمیں اب تک سرخرو ہیں کیونکہ پاکستان کے معتبر میڈیا ہاؤسز کے ذریعے قومی سلامتی کے اداروں کو زبردستی ان معاملات میں بھی ملوث کر دیا گیا ہے جن سے تاریخ میں پہلی بار ہمارے حساس ادارے دور بھاگ رہے ہیں۔
ماضی میں ہماری مقامی اسٹیبلشمنٹ کا جھکاؤ ہمیشہ جنرل ضیاء الحق کی باقیات کی طرف رہا ہے اور جنرل ضیاء الحق کی باقیات کو1988سے لیکر 2013ء کے الیکشن تک وہ سیاسی اور غیر سیاسی فوائد بھی پہنچائے گئے جو ہماری اسٹیبلشمنٹ کے لئے واجب بھی نہیں تھے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے بھٹو ازم سے خوف زدہ ہو کر میاں نواز شریف اور انکے حواریوں پر اپنے ”کرم“کی اتنی بارشیں کیں کہ وہ اب ایک ایسا سیاسی دیو بن چکے ہیں جسے اڈیالہ جیل میں بند کرا کر بھی مطلوبہ فوائد حاصل نہیں ہو پا رہے۔

کچھ لوگ یہ دلیل بھی دے رہے ہیں کہ میاں نواز شریف نے واپس آکر بیوقوفی کی ہے اور وہ ایسی حرکتوں کے ”عادی“ ہیں۔ لیکن سیاست سے دلچسپی رکھنے والے لوگ اور عالمی سامراج کی ضرورتوں سے واقفیت رکھنے والا طبقہ یہ دلیل ماننے کو تیار نہیں ہے۔ اس طبقے کی سوچ یہ ہے کہ میاں نواز شریف کو اس عالمی سرپرستوں نے وطن واپس بھیج کر نہ صرف انکے غیر ملکی اثاثوں کے تحفظ کو یقینی بنایا ہے بلکہ میاں نواز شریف کی سیاسی میراث کو بھی محفوظ کر دیا ہے۔ میاں نواز شریف جب سیاست میں ”طفل مکتب“ تھے تو انکے اسٹیبلشمنٹ میں موجود ہمدرد یہ سوچ رکھتے تھے کہ میاں نواز شریف کا کوئی سیاسی وژن نہیں ہے اس لئے ہم جو کہیں گے وہی ہو گا۔ مگر میاں نواز شریف مقامی اسٹیبلشمنٹ کے بازوؤں سے آزاد ہو کر اب انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی ”رکھیل“ بن چکے ہیں۔

میاں نواز شریف کا طرزِِ سیاست ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ ہر بے اصولی اصول ہے اپنا۔ لہذا میاں نواز شریف کی اس ”ادا“ کو عالمی سامراج نے بہت پسند کیا ہے اور انہیں غیر ملکی جائیدادوں کے تحفظ کے لئے پاکستان سے ہر بے اصولی کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور میاں نواز شریف عالمی قوتوں سے قوت پکڑ کر اب کھل کر میدان میں موجود ہیں اور کچھ عدالتوں میں بیٹھے ہوئے انکے ہمخیال کرپٹ عناصر بھی اس راہ پر چل نکلے ہیں۔
ملک کے نازک ترین موڑ پر اہم ترین الیکشن میں تمام سیاسی جماعتیں غریب عوام کی تقدیر بدل دینے کے ”شِرکیہ “ دعوے کر رہی ہیں کیونکہ یہ کام تو صرف اللہ ہی کر سکتا ہے۔ قومی سلامتی کے ادارے اپنی صفائی دینے پر مجبور ہیں کہ الیکشن سے ہمارا براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر عوام کو یہ سچ بتانے کے لئے کوئی تیار نہیں کہ ملکی سلامتی کے خلاف ”رقصِ ابلیس“ کی محفل کِس کِس نے جما رکھی ہے اور ابلیس سے چھٹکارے کے لئے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں

Comments are closed.