اْلّو

شمشاد مانگٹ

دنیا کے کئی ممالک میں اْلّو کو خوش قسمتی اور ذہانت کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں اْلّو کو بیوقوفی کے استعارے کے طورپر لیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں اتنے اْلّو نہیں ہیں جتنے اْلّو کے پٹھے پائے جاتے ہیں۔ انہیں حالات کو دیکھتے ہوئے شاید شاعر نے پاکستان کی منظرکشی اس طرح کی تھی کہ

”ہر شاخ پر اْلّوبیٹھا ہے
انجام گلستان کیا ہوگا؟

پاکستان میں موسم بدل رہا ہے اور نئی شاخیں پھوٹ رہی ہیں اور گلستان میں کورونا کی وباء پھوٹ چکی ہے جبکہ ہر کوئی اپنا اپنا اْلّو سیدھا کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔سوشل میڈیا پر کورونا کے بے شمار علاج اور شرطیہ توڑ بتا کر نیم حکیم اپنے اْلّو سیدھے کررہے ہیں جس طرح پاکستان میں اْلّو بہتات کے ساتھ اپنے پٹھوں کے ہمراہ پائے جاتے ہیں اسی تناسب سے اْلّوسیدھا کرنے والے پاک وطن میں موجود ہیں۔

ہمارے ہاں جو بھی حکومت ہو اس کے ساتھ وزیروں اور مشیروں کا ایک ٹولہ موجود ہوتا ہے اور خوردبینی جائزے کے بعد یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ان وزیروں مشیروں میں پانچ فیصد کام کرنیوالے ہوتے ہیں اور باقی سب اپنا اپنا اْلّوسیدھا کرنے والے ہوتے ہیں۔

موجودہ حکومت میں چند ماہ پہلے آٹے اور چینی کا جو مصنوعی بحران دیکھنے میں آرہا تھا اس میں سب سے زیادہ اْلّوسیدھا کرنے کا موقع حکومت کے غیراعلانیہ اور سرعام مشیر محترم جہانگیرترین کو ملا ۔ویسے بھی یہ ان کا حق تھا کیونکہ ”ایام مشکلہ” میں اور پھر دھرنے کے دنوں میں ان کے اکائونٹس پی ٹی آئی نے ایسے استعمال کئے جیسے پارٹی اکائونٹس ہوں ، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی نے جہانگیرترین کو اْلّو بنا رکھا ہے ۔اب معلوم ہوا ہے کہ پہلے پی ٹی آئی نے اپنا اْلّو سیدھا کیا اور اب جہانگیرترین نے اْلّوسیدھا کرکے حساب برابر کرلیا ہے اور آئندہ کے بحرانی دور کی کسر بھی پوری کرلی ہے۔

بہرحال جہاں حکومت کے کئی ساتھی اپنا اْلّوسیدھا کررہے تھے تو اپوزیشن بھی ایسے سنہری مواقع کی تاڑ میں ہوتی ہے اور اپنا اْلّوسیدھا کرلیتی ہے ۔مولانا فضل الرحمان ایک خوفناک دھرنے کے ذریعے اپنا اْلّوسیدھا کرنے کی جستجو لئے سخت سردی میں اسلام آباد پر لشکر کشی کرنے آئے تھے لیکن ان کے دوستوں شریف برادران اور آصف علی زرداری نے انہیں اْلّو بنا کر اپنا اپنا اْلّو سیدھا کرلیا اور مولانا فضل الرحمان ایسے ہاتھ ملتے ہوئے جاتے دیکھے گئے جیسے لوگ آج کل سینیٹائزر کے بعد ہاتھ ملتے ہوئے نظرآتے ہیں ۔شاید یہ مولانا فضل الرحمان کی ہی بد دعا تھی کہ اب پوری دنیا ہی ہاتھ مل رہی ہے۔

میاں شہبازشریف نے اپنے بھائی نوازشریف کی جیل سے رہائی اور پھر لندن روانگی کے لئے انتہائی رازداری سے طاقتور لوگوں سے ملکر معاملات طے کئے اور اپنی شخصی ضمانت پر انہیں لے کر لندن پہنچ گئے ۔محترمہ مریم نواز کی ضمانت کی حد تک تو انہیں ریلیف ملا لیکن پھر حکومت نے انہیں باہر جانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ۔محترمہ مریم نواز ابھی عوام میں جانے کا ارادہ کر ہی رہی تھیں کہ میاں شہبازشریف کورونا سے لڑنے کے نام پر وطن واپس آگئے ۔اپنی واپسی کو اگرچہ انہوں نے ”راجرمور” کی واپسی کا انداز دیا اور یہ تاثر بھی دیا کہ وہ مقتدر قوتوں کے اشارے پر پنجاب میں کورونا سے لڑنے آئے ہیں۔

اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ موصوف کو کورونا سے زیادہ اس بات کی فکر تھی کہ مریم نواز متحرک ہو گئیں تو پارٹی کی باگ ڈور مریم کے ہاتھ چلی جائے گی اس لئے وہ انتہائی صحت مند”بیمار” بھائی کو برطانیہ میں چھوڑ کر پاکستان چلے آئے جبکہ کورونا پاکستان سے زیادہ اس وقت برطانیہ میں موت بانٹتا پھر رہا ہے ۔میاں شہبازشریف کواس وقت اپنے بڑے بھائی کے پاس رہنے کی زیادہ ضرورت تھی لیکن وہ بڑے بھائی کو کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنا سیاسی اْلّو سیدھا کرنے پاکستان تشریف لے آئے ہیں۔حالانکہ قوم جانتی ہے کہ وہ ڈینگی کا مقابلہ اس وقت تک کرنے کے قابل نہیں ہوتے تھے جب تک درجہ حرارت13سے نیچے یا 30 سے اوپر نہیں چلاجاتا تھا ۔

جہاں تک معاملہ اْلّوسیدھا کرنے کا ہے تو میڈیکل سہولتوں اور عالمی مارکیٹ میں دستیاب چیزوں پر نظر رکھنے والے کئی بااختیار لوگ اپنا اْلّوسیدھا کرنے کے لئے چکر لگا رہے ہیں لیکن این ڈی ایم اے کے سربراہ جنرل افضل کے سامنے سب سے افضل ٹارگٹ پاکستان کے لوگوں کے لئے ماسک ، کٹس اور وینٹی لیٹرز جیسی سہولتوں کو یقینی بنانا ہے۔جہاں لوگ اپنا اْلّوسیدھا کرنے میں لگے ہوئے ہیں وہیں جنرل افضل جیسے لوگ اللہ سے معاملہ بھی درست کرنے میں پیش پیش ہیں۔

کورونا کے وار تیز ہونے کے ساتھ ہی ذخیرہ اندوزوں نے اپنا کام دکھانے کی تیاری مکمل کرلی تھی لیکن حکومت جو ایکشن لینے جارہی ہے اس سے لگتا ہے کہ ذخیرہ اندوزوں کے لئے کورونا سے زیادہ خطرناک مقامی انتظامیہ ثابت ہوسکتی ہے اور ان کا چھپایا گیا مال اسباب حکومت ضبط کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے اور انہیں عبرتناک سزائیں دینے کا بھی ارادہ کرچکی ہے اس لئے ذخیرہ اندوز مافیا کو چاہیے کہ اس عالمی وباء کے ذریعے اپنا اْلّو سیدھا کرنے کی بجائے براہ راست مخلوق خدا کی خدمت کریں اور اللہ تعالیٰ مشکل وقت میں دیئے ہوئے صدقے کا اجر بھی زیادہ عطا فرماتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے اب تک کئے گئے اقدامات نے ملک کو افراتفری سے بچایا ہے لیکن صبح ، دوپہر شام لاک ڈائون کا مطالبہ کرنے والے اپنا اْلّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ملک میں کورونا سے زیادہ لوگ بھوک اور افراتفری سے مرجائیں اور پھر وہ اپنا موقف بدل کر سارا ملبہ عمران خان پر گرا دیں۔وزیراعظم عمران خان ڈرامے بازی کے سوا قوم کیلئے بہت کچھ کررہے ہیں لیکن گزشتہ دس سال سے ڈرامے کرنیوالے اور دیکھنے والے چاہتے ہیں کہ حکومت کام کم اور ڈرامے زیادہ کرے البتہ وزیراعظم عمران خان کی ٹیم میں ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جو وبائی دور میں بھی اپنا اْلّو سیدھا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔

پاکستان میں جتنی بھی کرپشن ہوئی وہ اپنا اپنا اْلّوسیدھا کرنے کے چکر میں ہوئی ہے ، چاہے وہ آمریت کے دور میں ہوئی یا جمہوریت پسندوں نے کی ، اس لئے وزیراعظم کو اس اْلّو کا بھی اب مستقل بندوبست کردینا چاہیے جسے کوئی چوری چھپے نہ سیدھا کرسکے اور نہ الٹا کرسکے بلکہ ایک صائب مشورہ تو یہ بھی ہے کہ سارے اْلّو پکڑ کر سمندر برد کردیئے جائیں تاکہ نہ رہے اْلّو اور نہ ہی کوئی اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرے ورگرنہ جب تک اْلّو ہیں انہیں سیدھا کرنے والے پیدا ہوتے رہیں گے اور رہی بات اْلّو کے پٹھوں کی تو ہوسکتا ہے وہ اپنے گْر اْلّو کے غم میں یا تو مرجائیں یا راہ راست پر آجائیں ۔

حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ قوم ہاتھ دھو کر کورونا کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اور ہمارے گلی محلوں اور سڑکوں پر اْلّو بول رہے ہیں اور حکومت میں شامل کئی لوگ اور اپوزیشن اپنا اپنا اْلّو سیدھا کرنے میں لگی ہے۔کورونا کی وجہ سے لگتا ہے جیسے ملک میں باقاعدہ اْلّوراج نافذ ہو گیا ہے۔

Comments are closed.