میری پہلی محبت

55 / 100
محبوب الرحمان تنولی
میرے گاوں میں ٹراوئزر پہن کر جو کرکٹ کھیلے اسے بے شرم سمجھا جاتا تھا، اور ایک عرصہ تک پوری ٹیم میں اکیلا بے شرم میں ہی تھا جو قومی لباس کی بجائے میدان میں کٹ کرکے اترتا تھا۔۔سب سے مشکل مرحلہ گھر سے گراونڈ تک ٹراوزر شرٹ میں پہنچنا ہو تا تھا۔ جس راستے سے گزرتا لوگ گھور کردیکھتے۔۔ گویا کوئی بے لباس ہو۔۔ ۔
فحاشی پھیلاتاہے۔۔ انگریزوں کا لباس پہننے کا بہت شوق ہے اسے۔ پس پردہ طرح طرح کی آراء قائم کی جاتیں۔۔ ۔لیکن میں کرکٹ کریزی تھا کبھی کسی کی پروا نہیں کی ۔۔ ایک تو یہ کرکٹرز کا آفیشل لباس ہوتا ہے دوسرا کرکٹ کٹ میں کپڑوں سے زیادہ ایزی کرکٹ کھیلی جاسکتی ہے۔ مانسہرہ ڈسٹرکٹ چمپئن شپ کھیلنے کیلئے گاوں کی بجائے یوتھ کی اس وقت کی تنظیم ،،یونائٹڈیوتھ تناول، نے علاقائی سطح کی ٹیم بنائی تو اس میں جن مضافات کے کھلاڑی شامل کئے گے.
ان میں کریڑ ، بحالی ، ریاڑ، گوجری اور حسینیاں کے کھلاڑی شامل تھے۔ ۔ اس ٹیم کی کپتانی مجھے سونپی گئی ۔۔ میرے ساتھ بحالی سے نائب کپتان عقیل احمد تھے۔۔یونائٹڈڈ یوتھ تناول کے نام سے یہ کرکٹ کلب راجہ فیاض صاحب کی کوششوں سے رجسٹرڈ ہوا۔۔ اس وقت کے وفاقی وزیر قاسم شاہ کے اخبار مستقبل میں خبر لگی تو یہ ایک انوکھاواقعہ لگ رہاتھا ۔۔
ٹیم میں کریڑ سے شفقت شاہجہان ، محمد یوسف ، محمد ارشد ، بحالی سے عقیل احمد، راجہ ذاکر، افراب احمد،گڈا (اختر نواز)حسینیاں سے سجاد ، ریاڑ سے شیراز، گوجری سے عادل اور عاشق (مرحوم ) شامل تھے کرکٹر بننے کے شوق نے کالج میں بھی پیچھا نہیں چھوڑا ۔۔ ڈگری کالج مانسہرہ کی جب 1988میں کرکٹ ٹیم بنی تو ٹرائل لینے والوں نے مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے شاہین کرکٹ کلب،فرینڈز کلب، داتہ اور دیگر شہر کے کھلاڑیوں کا چناو کرکے باقی ٹرائل دینے والوں کو آوٹ کردیا۔۔
ریڑاں کے رہائشی وقار اور راقم نے اقربا پروری کا رولہ ڈال دیا، شور شرابا کرتے پرنسپل کے پاس جاپہنچے اور جعلی ٹرائل کی روداد سنائی۔۔ دوبارہ ٹرائل کرائے گے۔۔ ہم دونوں ٹیم کا حصہ تو بن گئے مگر ہزارہ ڈویژن انٹر کالجز کے ناک آوٹ مرحلے کے پہلے میچ میں ہم دونوں کو بنچ پر بٹھا دیا گیا۔ ٹیم ہار کر ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی۔۔
سلیکٹر کا دوسرے میچ میں وقار اور مجھے کھلانے کا وعدہ پورا نہ ہونے پر کپتان صاحب سے گراونڈ میں ہی لڑائی ہوگئی ۔۔ بعد میں پرنسپل آفس میں راضی نامہ بھی۔۔ بتیس سال پہلے کی روداد کا مجھے پل پل یاد ہے۔۔ تفصیل سے لکھوں تو کتاب بنتی ہے۔۔ کرکٹ بخار ایسا تھا کہ جس نے کہیں کانہیں چھوڑا تھا۔۔پذیرائی کایہ عالم تھا کہ گھر سے کھیلنے کی اجازت نہ ملتی تھی۔۔
راولپنڈی اور لاہورمیں کئی دفعہ کرکٹ کے ٹرائل میں حصہ لینے آتا تو لوگ مزاق اڑاتے تھے۔۔ میرے والد محترم کابھی خیال تھا کہ کرکٹ پر امیر خاندانوں کا قبضہ ہے ۔۔ ایک عام سا لڑکا اوپر کی سطح تک نہیں جاسکتا۔۔ اس کے باوجود میں نے ہمت نہیں ہاری ۔۔انڈر نائنٹین کے ٹرائل دینے قذافی سٹیڈیم پہنچا تو میرے ساتھ سری لنکا جانے کیلئے ٹرائل دینے والوں میں وسیم جعفر، عامر سہیل اور انضمام بھی موجود تھے.
اس وقت وہ بھی میری طرح امیدوار ہی تھے۔ پاکستان کی انڈر نائنٹین میں تو میری جگہ نہ بنی مگر اس بات پر خوش خوش واپس آگیا کہ ٹرائل کے دوران میں نے سلیم ملک کو تین بالز بیٹ کرنے کے بعد آوٹ کردیا تھا۔۔ بعد میں سلیم ملک نے مجھے تھپکی دی اور میری باولنگ کی تعریف کی تو میرے پیسے پورے ہوگئے۔۔
مجھے اس ناکام کوشش سے بڑا حوصلہ ملا۔۔ 1990کی بات ہے میں نے لاہور میں کسٹم کی ٹیم میں شمولیت کیلئے تمام رکاوٹیں عبور کرلیں۔۔ تین روزہ ٹرائل میں میرا انتخاب بھی ہو گیا۔۔ اس وقت کسٹم کی ہاکی ٹیم میں حنیف خان، کلیم اللہ اور سمیع اللہ ایسے بڑے نام ہوتے تھے۔۔ میں کسٹم کی ٹیم میں ابھی باضابطہ شامل نہیں ہوا تھا کہ میاں نواز شریف میرے راستے میں آ کھڑا ہوا۔۔
جمعرات کو ایم او کالج چوبرجی گراونڈ پر میں نے ٹرائل پاس کئے۔۔ سیکرٹری سپورٹ کسٹم اور دیگر دو سلیکٹرز نے مجھے مبارکباد دی اور کسٹم کی ٹیم میں شمولیت کی خوش خبر ی سنائی۔۔کسٹم ہاوس نابھہ روڈ تک میں ان ہی کی کار میں آفس پہنچا تو سہ پہر کے چار بج چکے تھے۔۔ پتہ چلا دفتری عملہ چھٹی کرکے جا چکاہے اس لئے اپائنمنٹ لیٹر اب ہفتہ کو ملے گا۔۔
وہ اس لئے کہ ان دنوں جمعہ کوسرکاری چھٹی ہوتی تھی۔۔ ہم نے خوشی خوشی مغلپورہ اچنت گڑھ واپسی کرلی۔۔ جمعہ گزرہی نہیں رہا تھا۔۔میں بہت شاداں تھا۔۔ گاوں میں پہاڑی علاقے میں ربڑ کاک بال سے کرکٹ کھیلنے والا لڑکا آج ایک بڑے ادارے کی کرکٹ ٹیم کاحصہ بننے جارہا تھا انتظار ختم ہوا۔۔ ہفتہ کی
صبح ساڑھے نو بجے میں کسٹم ہاوس پہنچ گیا۔۔ سیکرٹری سپورٹ کے سامنے حاضر ہوا تو اس نے پہنچتے ہی مجھے کہا افسوس ہے آپ کا کام نہیں ہوسکا۔۔
میں ششدر رہ گیا۔۔ وہ کیسے سر ؟۔۔۔ جواب ملا آپ نے نواز شریف صاحب کا قوم سے خطاب نہیں سنا؟ ۔۔۔ نہیں تو۔۔ کیوں کیا ہوا ؟۔۔۔ وہ گویا ہوئے۔۔ نوازشریف نے سرکاری ملازمتوں پر پابندی لگا دی ہے۔۔ میں نے جمعرات کو سلیکشن کی یاد دہانی کرائی تو ۔۔ انھوں نے کہا کہ ہم جمعرات کو بدقسمتی سے اپائمنٹ لیٹر نہیں لے سکے تھے۔۔
اب تو پچھلی تاریخ میں اس لئے لیٹر نہیں نکلوا سکتا کہ دفتر کے لوگوں کے بھائی اور بھتیجے ٹرائل دے رہے تھے مگر میں نے کسی کو خلاف میرٹ رکھنے سے اصولاً انکار کیا تھا اور سب کو پتہ ہے لیٹر جمعرات کو جاری نہیں ہوا۔ نواز شریف 1990میں پہلی بار وزیراعظم منتخب ہوئے تھے اور قوم سے اپنے پہلے خطاب میں سرکاری ملازمتوں پر پابندی لگا دی تھی۔۔ باقیوں کا تو مجھے نہیں پتہ مگر میرا کرکٹ کا کیئر یر اسی خطاب نے ختم کردیا تھا۔۔
مایوس اور بوجھل قدموں سے میں کسٹم ہاوس سے باہر آگیا۔۔ میں اس کے بعد بھی کرکٹ میں آگے جانے کیلئے مزید دروازے کھٹکھٹاتا مگر صحافت میرے ایسے پلے پڑی کہ تین ماہ کیلئے مولانا ظفر علی خان کی ،، ہفت روزہ زمیندار ،، ٹیم کا حصہ بنا ۔۔ اور پچیس سال ہوگئے وہ تین ماہ پورے نہیں ہوئے۔۔ یہ آفس لاہور کے لبرٹی پلازہ کے اسی لبرٹی گول چکر کے چھٹے فلور پہ تھا جہاں بعد میں سری لنکاکرکٹ ٹیم پر دہشتگردوں نے حملہ کیا تھا۔
میں نے زمیندار کی رپورٹنگ کی ذمہ داری سنبھالی تو پھر عجب ابتداء ہوئی۔۔ بقول شاعر ۔۔ پہنچتاہے ہر اک مے کش کے آگے دور جام اس کا ,,کسی کو تشنہ لب رکھتا نہیں ہے لطف عام اس کا !!! مجھے جو پہلی اسائمنٹ ملی وہ مون مارکیٹ علامہ اقبال ٹاون میں اسٹریلشیاء کپ جیت کر آنے والی قومی کرکٹ ٹیم کا استقبالیہ تھا۔۔ جس میں عمران خان ، جاوید میاں داد سمیت تمام اس وقت کے سٹار کرکٹرز شامل تھے۔۔ ۔۔
میری رپورٹ نے میرے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ایم ندیم کو بہت متاثر کیا۔۔ کہنے لگے آپ تو کہتے تھے آپ نے پہلے صحافت نہیں کی ہے۔۔ سٹوری میں مجھے ایسا لفظ نہیں مل رہا جس کو ایڈٹ کرسکوں۔۔۔تب اسے بتایا کہ میں شاعری بھی کرتا ہوں۔۔ مقامی اخبارات میں لکھنے کاچسکابھی شرو ع سے ہے اور اوپر سے آپ نے میری مرضی کی تقریب میں مجھے بھیجا تھا۔۔
کرکٹ کا شوق تو میں صحافت میں آ کر بھی پورا کرتا رہتاہوں۔۔ روزنامہ خبریں اسلام آباد، جنگ راولپنڈی، اساس راولپنڈی ، جناح اسلام آباد ، اوصاف اسلام آباد اور ایکسپریس نیوز اسلام آباد کی میڈیا کرکٹ ٹورنامنٹس میں نمائندگی کر چکاہوں۔۔ کرکٹر بننے کاخواب بکھر چکا ہے۔۔ صحافت نے پچیس سال سے میرے گرد ایسااحصار بنایاہے کہ میں اس سے باہر نکل ہی نہیں پایا۔۔
لیکن اند ر سے اب بھی کرکٹر ہوں۔۔ جہاں کرکٹ گراونڈ میں کرکٹ کامیچ دیکھتا ہوں گاڑی کھڑی کرکے دیکھنے لگ جاتا ہوں۔۔میرا بیٹا اکثر کرکٹ گراونڈز کے پاس سے گزرتے میچ ہوتا دیکھ کر کہتا ہے بابا کا سٹاپ آگیاہے۔۔ اسے یہ نہیں پتہ کہ بابا کا خواب بکھر چکا ہے ۔۔ اب کبھی کبھی کرچیاں سمیٹنے رک جاتا ہے ۔۔ سچ یہ ہے کرکٹ ہی میری پہلی محبت تھی جو ناکام ہوگئی۔

Comments are closed.