کھمبے اور کھوتے

حسن نثار

‘ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق‘

پہلے سینیٹ نے سنسنی پھیلائی ہوئی تھی اور وہاں کی جمہوری خریدوفرخت، جوڑ توڑ، دھینگا مشتی نے عوام کے اعصاب تباہ کر رکھے تھے ۔تھڑوں سے لیکر ڈرائنگ روموں تک ’’ایوان بالا ‘‘ نے سب کچھ تہہ وبالا کر رکھا تھا۔چسکے چیزے اور جوئے عروج پر تھے حالانکہ حفیظ شیخ ہوتے یا یوسف رضا گیلانی ہیں تو کوئی جوہری تبدیلی نہ تب آنی تھی نہ اب آنی ہے سوائے اس کے کہ جمہوریت نامی سپر ماڈل کی ’’خوبصورتی ‘‘ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

مہنگائی بہت مہنگی ہے تو یہ جمہوریت مہنگی ترین جس میں کروڑوں کا ذکر بھی کوڑیوں کی طرح ہوتا ہے۔ چشم بددور….جمہوریت آباد جبکہ جمہور برباد ترین۔ میری ذاتی کیفیت عجیب سی رہی کہ جب کوئی سینیٹ الیکشن کا ذکر کرتا، مجھے شدید بیزاری اور سڑاند کا احساس ہوتا، کبھی موضوع بدل دیتا کبھی خاموشی اختیار کر لیتا۔

خدا خدا کرکے اس سینیٹ سرکس سے جان چھوٹی تو اب اعتماد کے ووٹ کا ٹوٹ بٹوٹ سامنے ہے کہ جمہوری کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں لیکن کیونکہ میری عمر کھلونوں سے بہلنے کی نہیں اس لئے نہ سینیٹ سرکس سے کوئی دلچسپی تھی نہ اعتماد، عدم اعتماد کا یہ فساد میرے نزدیک کوئی معنی رکھتا ہے.

ہمارے ہاں رومن اکھاڑوں کی شکل تبدیل ہوئی ہے، تب سیدھے سادے گلیڈی ایٹرز ہوتے تھے، اب معزز جمہوری گلیڈی ایٹرز ہوتے ہیں لیکن داد دینا ہوگی کہ چند خاندانوں نے 24 ،22 کروڑ آدم زادوں کو کیسی مہارت، چابک دستی اور چالاکی و پرکاری کے ساتھ کتنی بے رحمی سے انگیج کر رکھا ہے جبکہ میرے اندر اس سارے کھیل کیلئے مکمل لاتعلقی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

چیئرمین سینیٹ کون ہے ؟

اعتماد کا ووٹ کدھر جاتا ہے ؟

مجھے اس سے رتی برابر دلچسپی نہیں ۔

ابن مریم ہوا کرے کوئی

میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

لیکن یہ ’’دوا‘‘ کسی فارمیسی پر موجود نہیں تو آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اپوزیشن لیڈر سندھ اور تحریک انصاف کے حلیم عادل شیخ نے یہ کہتے ہوئے ’’وجہ‘‘ بیان کر دی ہے کہ’’ عمران خان کسی گدھے کو بھی ٹکٹ دے تو ہم اس کو ووٹ دیں گے‘‘۔میں نے کالم کے عنوان میں گدھے کو کھوتے لکھا ہے کیونکہ پنجابی زبان میں گدھے کو کھوتے کہتے ہیں اور گدھے کو کھوتے کہنے لکھنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔

بات ہو رہی تھی عظیم جمہوری رہنما کے اس عظیم جمہوری قول کی کہ ’’آقا‘‘ اور ’’اوتار‘‘ جس کو ٹکٹ دے گا، ووٹ اسی کو دیں گے‘‘ تو شیخ صاحب کا یہ قول مجھے عشروں پیچھے لے گیا جب پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو ’’قائد عوام‘‘ اور ’’فخر ایشیا‘‘ وغیرہ کہلاتے تھے اور یہ بات زبان زدعام تھی کہ

’’بھٹو کھمبے کو بھی ٹکٹ دے گا تو وہ جیت جائے گا‘‘

عجیب لوگ ہیں کہ جن باتوں، رویوں، کرتوتوں پر ڈوب مرنا چاہئے ہم ان پر تیراکی کے کرتب دکھاتے ہیں،جس بات پر شرمندہ ہونا چاہئے، ہم سرعام اس پر فخر کرتے ہیں۔اسی لئے اس نجاست بھری جمہوریت میں کھوتا کلچر ختم ہونا تو کیا، مسلسل پروان چڑھ رہا ہے ۔قوم ڈھینچوں ڈھینچوں سنتے اور جمہوری دولتیاں کھاتے کھاتے بری طرح نڈھال اور ابنارمل سی ہو چکی ہے ۔

عشروں پہلے جب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے تب کے مغربی پاکستان یعنی آج کے ٹوٹل پاکستان میں جمہوری جھاڑو پھیرا تو میں سکول کی ابتدائی کلاسوں میں تھا جب یہ جملہ پگھلے ہوئے سیسے کی طرح کانوں میں اترا کہ …..’’بھٹو تو کھمبے کو بھی ٹکٹ دے گا تو وہ جیت جائے گا‘‘

میں قبر کنارے پہنچ گیا اور سوچ رہا ہوں کہ ہم کیسی زندہ قوم ہیں جس نے عشروں میں صرف اور صرف کھمبوں سے کھوتوں تک کا سفر ہی طے کیا تو یاد آئے وہ نایاب جو صدیوں پہلے کہہ گئے کہ ’’جیسے عوام ہوں ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں‘‘ جبکہ ہماری پسند کھمبوں سے شروع ہو کر کھوتوں تک ہی ختم ہو جاتی ہے ۔

اس پسند نا پسند اور ایسی ترجیحات کے بھیانک نتائج ہمارےسامنے ہیں بلکہ ہمارے اندر سما چکے ہیں لیکن پھر بھی کوئی اس کھمبا کھوتا کلچر کے قاتلانہ تسلسل پر غور کرنے کو تیار نہیں بلکہ کچھ نابغے تو ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ قوموں کی زندگی میں 50،100سال کوئی معنی نہیں رکھتے۔

ان معصوموں کو اس سادہ سی بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ ان ڈیڑھ دو صدیوں میں ’’سال‘‘ کا مطلب مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے کیونکہ اب سچ مچ زندہ قومیں ایک ایک سال میں ایک نہیں کئی کئی صدیوں کا سفر طے کر رہی ہیں جبکہ آغاز سفر کیا، ہم تو ابھی تک سمت کا تعین بھی نہیں کر پارہے، کھمبوں اور کھوتوں کے درمیان لڑھکتے پھر رہے ہیں۔کھمبا جھٹکا مارتا ہے تو کھوتے کی طرف، کھوتا دولتی جھاڑتا ہے تو کھمبے کی طرف لڑھک جاتے ہیں.
(بشکریہ روزنامہ جنگ)

Comments are closed.