کنیزکربلا کی بس یزیدیت سے جنگ تھی

فرح احسن

زمانہ اپنی ابتدا سے آج تک ترقی کے جتنے بھی مراحل طے کر لے حق اور باطل کا فرق نہ مٹا ہے اور نہ مٹنے والا ہے۔ ہر دور میں حق اور باطل کے درمیان کشمکش اس بات کی غماز ہے کہ ہر دور میں حق کی پاسداری کرنے والے اور ظالم کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنے والے گزرے ہیں جنھیں تاریخ نے صدا سنہرے حرفوں میں یاد کیا ہے۔

تاریخ نے ہم حرماں نصیبوں کے دامن میں بھی چند ایسے نایاب لوگ ڈالے ہیں جنھوں نے حق کی پاسداری کے لئے اپنی جان تک کی پرواہ نہ کی۔پاکستان پیپلزپارٹی ایسے ہی نڈر جیالوں کا گلدستہ ہے جہاں قربانی کارکنوں سے زیادہ پارٹی کی قیادت کے حصے میں آئی ہیں۔

لیڈر/ قائد دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو لوگوں کی ہدایت کرتا ہے اور خود کو آگے رکھ کر اپنے عمل کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے اور دوسرا وہ جو اپنے پیروکاروں کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی اپنے قیام سے لے کر آج تلک بائیں بازو کی علمبردار کہلانے کے باعث اسٹبلشمنٹ کی معتوب ٹھری۔

یہ باوقار ادرے کبھی ہمارے نظریے اور کبھی ہماری لاشوں کی قامت سے خائف رہے۔ کوئی بیالیس برس جاتے ہیں کہ ایک آمر نے اپنی طاقت کے نشے میں چور ہو کر ملک کے منتخب وزیراعظم اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ کو پھانسی پر چڑھانے کے بعد کہا تھا کہ آج پیپلزپارٹی ختم ہو گئی مگر پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک نوعمر نہتی بیٹی نے اپنے باپ کے مقصد اور پارٹی کے منشور کو مقصد حیات مان کر قدم آگے بڑھایا.

پھر 1988 میں مسلم امہ کی پہلی خاتون وزیراعظم اور دنیا کی سب سے کم عمر وزیراعظم کی ذمہ داری سنبھالی۔ بی بی شہید کا مشن جمہوریت کی بالادستی اور عوام کو طاقت کی فراہمی تھا اور اپنے اسی مشن کو پورا کرنے کے لئے وہ اپنی جان پر کھیل کر 2007 میں وطن واپس آئیں اور وقت کے آمر کی تمام تر پیشکشوں اور دھمکیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جمہوریت کی بحالی کا بیڑہ اٹھایا.

جس کی پاداش میں انھیں 27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں بڑی سفاکی سے شہید کر دیا گیا آہ!
صاحبو حق کے علمبردار "ہاتھ بیعت کو بڑھاتے نہیں، سر دیتے ہیں”!محترمہ کی پوری زندگی ان کا ہر عمل اور سیاسی بصیرت ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے.

یہ ہمیں بتاتا ہے کہ یزید وقت کے آگے ڈٹ جانا بلاشبہ آتش نمرود پر ننگے پاؤں چلنا ہے پر جو ڈٹ جانے کی ہمت کر لے وہ تاریخ کے پنھوں میں امر ہو جاتا ہے۔ بی بی شہید کہتی تھیں کہ آمریت کا مقدر ہمیشہ ذلت اور گمنامی ہوتا ہے اور اپنے اصولوں اور نظریات کیلئے قربانیاں دینے والے تاریخ میں زندہ رہتے ہیں۔ صاحبو وقت کا تجزیہ بڑا بے رحم ہوتا ہے اور اس کا فیصلہ اٹل ٹھہر تا ہے۔ یہ جاتے جاتے ہر رعونت اور امر ہونے کے وقتی گمان پہ خاک ڈال جاتا ہے۔

سچائی تو یہ ہے کہ بی بی کو اپنی بہادری، حب الوطنی اور عوام کے دلوں میں رہنے کی قیمت اپنی جان دے کر چکانی پڑی صرف یہی نہیں انکی پوری زندگی سیاسی آلام سے عبارت ہے جس میں باپ کی شہادت، سیاسی سفر کے اتارچڑھاو، بے بنیاد سیاسی الزامات، دونوں بھائیوں کی جان کی قربانی، شریک سفر پر جھوٹے الزامات اور قیدوبند کی صعوبتیں شامل ہیں.

مگر یہ سارے محرکات مل کر بھی اس کے عزم و حوصلے کو متزلزل نہ کر پائے۔ جہاں اپنی جان کی سلامتی پر خوف کے سائے منڈلا رہے ہوں وہاں جمہوریت کی بحالی کی خاطر عوامی قافلے کی رہنمائی کرنے کے لئے یقینا بی بی جیسا آہنی جگرا چاہیے تھا۔ ہماری سیاسی تاریخ میں بی بی ہماری متاع جمہوریت ہیں جنھیں تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں یاد رکھا جائے گا.

حق گوئی کے لئے، دلیری کے لئے، عوام کے حقوق کی جدوجہد کے لئے، جمہوریت کے استحکام کی جدوجہد کے لئے اور اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے باطل کے آگے ڈٹ جانے کے لئے کیونکہ کنیز کربلا کی بس یزیدیت سے جنگ تھی!

"میں اپنی جان کو لاحق خطرات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وطن واپس آئی ہوں کیونکہ میرا ملک خطرے میں ہے اور ہم سب مل کر ہی اپنے ملک کو ان مسائل سے باہر نکالیں گے۔”
بے نظیر بھٹو- 27 دسمبر 2007.

Comments are closed.