پی ڈی ایم کیوں ناکام ہوئی؟

مظہر عباس

جو اتحاد بدگمانیوں پر قائم ہو اس کی کامیابی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ گیارہ جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) تشکیل سے پہلے ہی اختلافات کا شکار ہوگیا تھا اور حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں میں اعتماد کا فقدان واضح تھا جس کی دو بڑی مثالیں مولانا فضل الرحمٰن کے 2020میں لانگ مارچ سے پہلے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کا راہ فرار اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جو بآسانی منظور ہو سکتی تھی اس کی ناکامی۔ اس کے بعد کوئی بھی حکومت مخالف تحریک کامیاب کیسے ہو سکتی تھی؟

لہٰذا وہی ہوا جس کا خدشہ تھا یعنی اسی تنخواہ پر کام۔ حکومت گرانے نکلے تھے خود گرتے گرتے بچے اور 26؍مارچ کو ’’لانگ مارچ‘‘ کا اعلان کرکے معاملات ٹالنے کی کوشش کی۔ایسا لگتا ہے کہ ایک لانگ مارچ کے نتیجے میں میاں صاحب خاموش این آر او لے گئے اور دوسرا جو ابھی ہوا نہیں زرداری صاحب کو ریلیف دے جائے گا جس کے اشارے ملنا شروع ہوگئےہیں۔

پی ڈی ایم کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ اس کی انتہائی ناقص حکمتِ عملی تھی۔ کسی بھی لڑائی سے پہلے اپنے مدِمقابل کی طاقت اور کمزوری کو جانے بغیر میدان میں اترنا ہی ناکامی کی علامت ہوتا ہے۔ پھر اپنی طاقت اور کمزوری کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس اتحاد میں ان دونوں چیزوں کی کمی نظر آئی۔ اب اگر عمران خان ’’سلیکٹڈ‘‘ ہیں تو یہ جائزہ لینا ضروری تھا کہ ’’سلیکٹر‘‘ ابھی اس کو تبدیل کرنا چاہتے بھی ہیں یا نہیں۔

اب میاں صاحب تو ایمپائر کی مرضی سے میدان میں اترتے تھے اور پھر ایمپائر سے ہی لڑنے لگتے تھے۔ خان صاحب نے ان سے یہی سبق سیکھا کہ جس کی مرضی اور حمایت سے آئے ہیں،بس اس سے لڑائی نہیں لڑنی۔ جس طرح ہماری اعلیٰ عدلیہ نے 2000میں جنرل (ر) پرویز مشرف کو ’’نظریہ ضرورت‘‘ کےتحت وہ اختیار بھی دے دیا جو انہوں نے مانگا بھی نہیں تھا، ہمارے کپتان نے بھی اپنی کامیابی کا راز اسی میں جانا۔ رہ گئی بات زرداری صاحب کی تو انہوں نے اپنی کامیابی پی پی پی کا مزاحمتی ڈی این اے مفاہمت میں تبدیل کرکے حاصل کرلی۔

پی ڈی ایم کی ناکامی کی دوسری بڑی وجہ مسلم لیگ (ن) کے قائد کا بیرون ملک جانا اور پھر وہیں کا ہوکر رہ جانابھی ہے۔ بدقسمتی سے تین بار کے وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے یہ پہلی بار نہیں کیا۔ ماضی میں ان کے سعودی عرب جانے سے پارٹی ٹوٹ گئی تھی اور ان کے اس عمل نے آمر کو طاقتور بنا دیا۔ بعد میں جاوید ہاشمی جیسے لوگوں کو طویل قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ اب میاں صاحب خمینی تو ہیں نہیں کہ باہر سے انقلاب لے آئیں۔ صرف نظریاتی ہونے سے بات نہیں بنتی ’’قربانی‘‘ بھی دینا پڑتی ہے۔

اب اگر پی ڈی ایم کے پہلے جلسے میں دھواں دار تقریر کے ساتھ ہی اپنی واپسی کا اعلان کردیتے تو شاید سویا ہوا پنجاب جاگ جاتا۔مسلم لیگ (ن) اس وقت ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ پنجاب کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود ان کو اندازہ ہونا چاہئے کہ یہاں کے لوگ ’’ووٹ‘‘ تک تو ساتھ دیتے ہیں، تحریکوں کا حصہ کم بنتے ہیں۔مسلم لیگ (ن) جس طرح کھڑی ہے اور ووٹ بینک اب تک ساتھ ہے اسے غنیمت جانے مگر پی ڈی ایم کی ناکامی کے اثرات چند ماہ بعد ان پر بھی نمودار ہوسکتے ہیں۔ بلدیاتی الیکشن اصل امتحان ہوگا ان کی مقبولیت کا۔

یہ امتحان صرف مسلم لیگ کا ہی نہیں خان صاحب کا بھی ہوگا کیونکہ پاکستان تحریک انصاف ماسوائے ‘ کے پی’ کسی اور صوبہ میں بلدیاتی الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں نہیں، اسی لئے مختلف تجربات کئے جارہے ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ کا توڑ بہرحال خان صاحب یا ایمپائر اب تک نہیں کرپائے ۔ کوششیں جاری ہیں۔

رہ گئی بات اسامہ بن لادن والی تو پی ٹی آئی کے دوست پہلے شیخ رشید صاحب سے معلوم کرلیں کہ 1988سے 1990تک اس کی مالی امداد کون کون کرتا رہا ؟ یہ ’’باب‘‘ کھل گیا تو والیوم10سے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ اس لئے اصغر خان کیس کی طرح یہ بھی بس ’’اگر مگر‘‘ کا شکار رہے گا۔ اور کچھ نہیں تو دفاعی تجزیہ کاروں سے ہی معلوم کرلیں۔ سنا ہے حساب 10ملین ڈالر کا ہے۔

اگر بات کریں پی ڈی ایم کے اسمبلیوں سے استعفیٰ یا وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے کی تو یہ اب آثار نظر نہیں آرہے۔ میاں صاحب ہڑتالوں، پہیہ جام کے زمانے چلے گئے کیونکہ ’’ایمپائر‘‘ بدل گئے ہیں جو کسی کو اشارہ کرتے تھے اور وہ کراچی بند کرا دیا کرتا تھا۔ اس وقت تو ایک پی ڈی ایم ہی کیا کسی زمانے کی ’’بی ٹیم‘‘ جماعت اسلامی کا لانگ مارچ کہیں لاپتہ ہوگیا ہے۔

آگے کا پتا نہیں، اس وقت تو راوی خان صاحب کے لئے ’’سب اچھا‘‘ لکھتا ہے۔ پی ٹی آئی کا اصل مقابلہ خود پی ٹی آئی سے ہے۔ سینیٹ میں کامیابی یقینی بنانے کے لئے آئینی ترمیم اسی لئے لانے کی کوشش ہوئی۔ حیرانی اس بات کی ہے کہ شفافیت صرف سینیٹر کے انتخاب میں کیوں، چیئرمین سینیٹ کا انتخاب اوپن بیلٹ سے کیوں نہیں؟ ’’سینیٹ آف دی ہول‘‘ کی تجاویز مان لی جائیں تو ‘اے ٹی ایم’ جانے کی ضرورت نہ پڑتی۔

رہ گئی بات عوام کی تو ان کو تو کرکٹ میچ گراونڈ میں دیکھنے کی اجازت نہیں ’’کورونا‘‘ کی وجہ سے وہ لڑائی لڑنے یا دیکھنے کہاں جائیں۔ وہ تو اب بس نتیجہ دیکھتے ہیں کہ کون سا حکمران آئے گا اور تقدیر بدلے گا جو آتا ہے مہنگائی ساتھ لاتا ہے۔ ایک لاوا ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے مگر اس کا بٹن پی ڈی ایم کے پاس نہیں ہے۔ ایک دوسرے پر عدم اعتماد کے ساتھ جلسے جلوس تو ہوسکتے ہیں، ہجوم بھی جمع ہوجاتا ہے لیکن تحریک نہیں چلتی۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ)

Comments are closed.