میڈیا بحران،ذمہ دار کون؟

                                              فرخند اقبال 

زمانہ طالب علمی میں جب میں اخبارات میں لکھے مضامین پڑھتا تھا تو وہ ہمیشہ میرے علم میں اضافے کا باعث بنتے تھے۔ میں نے میڈیا کو ملک پر مسلط ایک آمر سے لڑتے ہوئے بھی دیکھا جس نے بالآخر اسے اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر پھینکا ۔

اس کے بعد جب ملک میں ہر طرف لاقانونیت کا راج تھا، میں نے اس دور میں بھی ایک طاقتور میڈیا دیکھا جس نے جمہوریت کے حق میں بھرپور مہم چلائی اور ایک معزول چیف جسٹس کو واپس اپنے عہدے پر بحال کرا کر دم لیا۔

میڈیا میرے لئے ایک ہیرو بن گیا اور میں نے صحافی بننے کا فیصلہ کر لیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب میں نے 2015 ء میں عملی صحافت کا آغاز کیا تو کریئر کے ابتدائی دنوں میں ایک دن ایڈیٹر نے مجھے مانیٹرنگ روم میں بیٹھ کر خبریں تیار کرنے کا ٹاسک دیا۔

یہ میری زندگی کا ایک یادگار دن بننے والا تھا کیونکہ اس روز میرا صحافت کا وہ سفر شروع ہو رہا تھا جس نے میری زندگی کو ایک نئے رخ پر ڈالنا تھا۔ جب میں مانیٹرنگ روم میں داخل ہوا توان دنوں ملک کی ایک معروف سیاسی شخصیت کی شادی کا چرچا تھا اور ملک کے سارے چینلز اسے کور کرنے میں مصروف تھے۔

مجھے ایک بہترین خبر کی تلاش تھی اور میری نظریں چند بڑے چینلز کی اسکرینز پر دوڑنے لگیں تاکہ کچھ ٹکرز لے سکوں۔ چند لمحے بعد ایک چینل نے میری توجہ حاصل کرلی اور اس پر چلنے والی خبرنے مجھے حیران کرکے رکھ دیا۔

رپورٹر کیمرے کے سامنے چیخ چیخ کر اس ”بڑی شادی“ کی رپورٹنگ کر رہا تھا اور دلہن کا نام بار بار لیتے ہوئے کہہ رہا تھا ”ناظرین دلہن اس وقت گاڑی میں بیٹھ گئی ہیں۔ وہ رنگین عروسی لباس میں ملبوس ہیں، جس میں نیلا، گلابی، سیاہ، سبز (اور جانے کیا کیا) رنگ شامل ہیں۔

اس نے زعفرانی رنگ کی لپ سٹک لگائی ہے۔ پلکوں پر سیاہ مسکارا ہے۔ اس کے ساتھ گاڑی کی پچھلی نشست پر دو اور خواتین بیٹھی ہوئی ہیں۔ دلہن ان کے ساتھ مسکرا مسکرا کر بات کر رہی ہے۔ تھوڑی دیر بعد اسی چینل پر ایک اور رپورٹر سامنے آیا اور اس نے تقریب میں دلہن کی ظہرانے میں شرکت کی رپورٹنگ شروع کی۔

اپنے ناظرین کو اس بات تک سے  آگاہ کیا کہ ”ناظرین دلہن نے اتنے نوالے لئے“۔ اس رپورٹنگ کا معیار دیکھتے ہوئے میں نے کئی اور چینلزکے اسکرینز سے رجوع کیا لیکن تقریباً ہر چینل اسی قسم کی خبریں دے رہا تھا۔

بے شک میڈیا میں میری دلچسپی بہت پہلے سے تھی لیکن اتنی باریک بینی سے کبھی غور نہیں کیا تھا۔ اب ایک اناڑی صحافی کے طور پر میں اس رپورٹنگ کو صحافت سمجھ کر ایک طرح کی مایوسی میں مبتلا ہوگیا۔ میرا ذہن منطقی طور پر یہ سوچنے لگا کہ ان خبروں کا عوام کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

  یوں جلد ہی میرے ذہن میں قائم میڈیا کا امیج تہس نہس ہوگیا اور مجھے چند روز بعد ہی اپنے فیصلے پر مایوسی ہونے لگی۔ مجھے اپنے کام سے اکتاہٹ سی ہو گئی اور ہر صبح اٹھ کر دفتر جانا ایک بے کار کی مشق لگنے لگی۔ یہ سلسلہ شاید طول پکڑتا کہ ایک روز میری ملاقات ایک سینئیر صحافی سے ہوگئی جنھوں نے ملک کے کئی معروف انگریزی اخبارات کے علاوہ امریکی میڈیا میں بھی صحافتی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔

میں نے ان سے اپنی بے چینی شیئر کی اور رہنمائی طلب کی۔ خوش قسمتی سے اس ملاقات کے بعدہمارا زیادہ وقت اکٹھے گزرنے لگا اور ان کی محفلوں میں شامل ہو کر مجھے معلوم ہوا کہ اصل صحافت وہ نہیں ہے جو میں روز ٹی وی پر دیکھتا ہوں اور یوں میرے سیکھنے کا عمل شروع ہوگیا۔ آج اگرچہ میں اس سطح پر کام نہیں کرسکتا جس کی وہ مجھ سے توقع رکھتے ہیں لیکن پھر بھی سیکھنے کا یہ سفر جاری ہے۔

2000 ء کی دہائی کے اوائل میں جو صحافی الیکٹرانک میڈیا میں کام کرکے فخر محسوس کرتے تھے، آج ان میں سے اکثریت کو یہ بتاتے ہوئی خفت سی محسوس ہوتی ہے کہ وہ کسی چینل سے وابستہ ہیں اور اس کی بڑی وجہ شعبہ صحافت بالخصوص الیکٹرانک میڈیا میں غیرپیشہ واریت (نان پروفیشنلزم) کی بہتات ہے۔

گزشتہ چند برسوں سے ہمارے صحافتی ادارے ”مزدور نما صحافیوں“ سے بھر گئے ہیں کیونکہ اب صحافی بننے کے لئے نہ تو تعلیمی قابلیت اور نہ ہی مطلوبہ صلاحیت دیکھی جاتی ہے۔ ان اداروں میں شامل ہونے کے لئے صرف ایک کوالیفکیشن ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ ادارے میں بڑے عہدے پر فائز کسی شخص تک رسائی رکھتے ہیں یا نہیں؟

باقاعدہ ٹریننگ کا کوئی نظام نہیں ہے۔ نتیجے کے طور پر اکثر صحافی صحافتی اصولوں سے نابلد ہیں او ر وہ فیلڈ میں جاکر بڑی غلطیاں کرتے ہیں جس کی وجہ سے میڈیا کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے اور عوام میں اس کا امیج متاثر ہوا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بار کہا تھا ”عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں“۔

ان کی یہ بات اپنے آپ میں بہت وزن رکھتی ہے، کیونکہ جب کسی ریاست کا کوئی ادارہ عوام کا اعتماد کھو دیتا ہے تو وہ ادارہ پھر زیادہ عرصے تک فعال نہیں رہ سکتا، وہ پہلے تنقید کی زد میں آتا ہے، پھر دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے اور بالآخر کمزور ہوجاتا ہے۔

یہی حال اب ہمارے میڈیا کا ہے۔ آج میڈیا اپنے غیرپیشہ ورانہ رویوں کے باعث عوام میں مقبولیت کھو رہا ہے اور نتیجتاً دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا پر سنسرشپ میں اضافہ ہو رہا ہے، حکومت کی جانب سے پیمرا جیسے اقدامات کے ذریعے اس کے پر کاٹنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔

خود میڈیا مالکان بھی صحافت کے ٹھیکہ دار بن گئے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ماضی میں براہ راست فوجی حکومتوں اور کنٹرولڈ جمہوریتوں میں میڈیا کو قابو میں رکھنے کی کوششیں نہیں کی گئی تھیں؟

کیا کبھی کسی حکومت نے یہ چاہا تھا کہ میڈیا اتنا آزاد ہوجائے کہ اسے بے خوف تنقید کا نشانہ بناتا رہے؟ ماضی میں بھی تو کئی بار صحافیوں کے خلاف کریک ڈاون ہوا ہے۔ ہم نے پہلے بھی صحافیوں پر حملے ہوتے دیکھے، ان کو اغواء ہوتے اور شہید ہوتے دیکھا۔

لیکن اس وقت عوام میں میڈیا کا اچھا امیج قائم تھا اور عوام سمجھتے تھے کہ صحافی ان کے مسائل کی درست اور بے خوف نشاندہی کرتے ہیں اور ان کے حقوق کی جنگ لڑ تے ہیں، اس لئے انھوں نے ہر مشکل وقت میں صحافیوں کے حق میں آواز بلند کی اور جبر کی طاقتوں کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔

لیکن آج ایسا نہیں ہے، آج ہماری زیادہ تر خبروں کا عوام کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ آج ہمارے ہاں صحافت کے اس بنیادی اصول کا فقدان نظر آتا ہے کہ رپورٹ ہونے والی خبر سے عوام پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ اس لئے آج میڈیا انڈسٹری اپنی تاریخ کے ایک بڑے بحران سے گزر رہی ہے، ادارے بند ہو رہے ہیں۔

صحافی فارغ کیے جارہے ہیں، تنخواہیں روکی جا رہی ہیں، لیکن پھر بھی عوامی حلقوں میں اور سوشل میڈیا پر میڈیا کے خلاف غم و غصے کا اظہار جاری ہے اور حمایت میں کم آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ آج صحافتی برادری بھی آپس میں تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ دائیں بازو کے تجزیہ کار بائیں بازو کے تجزیہ کاروں کو برداشت نہیں کر رہے اور لیفٹسٹ تجزیہ نگار رائٹسٹس کو سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

صحافتی تنظیموں میں اتحاد کا فقدان ہے، فیڈرل یونین آف جرنلسٹس جیسی تنظیمیں متعدد دھڑوں میں بٹی ہوئی ہیں۔ صحافتی اداروں میں بھی ماضی کے برعکس کوئی اتحاد نہیں ہے اور کئی ادارے تو باقاعدہ ایک دوسرے کے خلاف پراپیگنڈا کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا بحران کے خاتمے کے لئے ابھی تک کوئی متحد تحریک شروع نہیں ہوسکی ہے۔

موجودہ بحران میں تازہ فیکٹر میڈیا مالکان کی من مانی ہے۔ اس کا آغاز تب ہوا تھا جب مالکان نے چند سال قبل اپنے اداروں کی پالیسیوں میں ایڈیٹرز کو بائی پاس کر کے خبروں کی نشرواشاعت میں براہ راست مداخلت شروع کی۔ اطلاعات کے مطابق متعدد اداروں کے ایڈیٹرز کے اختیارات کو سلب کیا گیا اوراس کی وجہ سے کچھ بڑے اداروں کے ایڈیٹرز کے استعفوں کی خبریں بھی سامنے آئیں۔

اس کے بعد ان اداروں کی ساکھ گرنا شروع ہوگئی۔ میڈیا مالکان کو بھی خبروں کی نشرواشاعت میں براہ راست مداخلت کا موقع اس وقت مل گیا جب انڈسٹری میں غیر پیشہ ور صحافیوں کی بھرمار ہوگئی وہ صحافی کم اور ”ملازمین“ زیادہ بن گئے۔

آج کل نجی محفلوں میں صحافی اسٹیبلشمنٹ کے دباوٗ اور سنسرشپ کا بہت ذکر کر رہے ہیں اور بے شک یہ چیزیں موجود ہیں لیکن میڈیا میں خبر (قومی سلامتی اور اخلاقی اقدار) جیسی چند شرائط کے علاوہ، نتائج کی پرواہ کیے بغیر رپورٹ کی جاتی ہے۔ صحافت اور ڈر ایک ساتھ کبھی نہیں رہ سکتے۔

اگر میڈیا کسی کے ڈر کی وجہ سے ممتاز قادری کی پھانسی پر عوامی ردعمل یا پشتون تحفظ موومنٹ کو کوریج نہیں دیتا تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ ہم نے اپنی طاقت اور عوام میں اپنی حیثیت دونوں کھو دیے ہیں اور انھیں بحال کرنے کے لئے ہمیں صرف اور صرف صحافتی اصولوں پر مبنی صحافت کرنا ہوگی۔

ایجنڈوں اور گروہی مفادات کے حصول کی کوششوں سے اجتناب کرنا ہوگا۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہم خود اپنی غلطیوں سے کمزور ہوگئے اور اس کی وجہ سے مختلف عناصر کو ہم پر قابو پانے کا موقع مل رہا ہے۔ مسائل کی جڑ خود صحافیوں کی اپنی کمزوریاں ہیں، ان پر قابو پالیا جائے تو پھر میڈیا کو کوئی کنٹرول نہیں کر سکتا۔

Comments are closed.