عمران خان کی اہلیہ، نواز شریف کی بیٹی

پاکستان میں سوشل میڈیا پر الزامات لچر پن اور ایک دوسرے کو گندا ثابت کرنے کے لیے خوفناک جنگ چھڑی ہوئی ہے ۔۔افسوسناک پہلو یہ ہے کہ لفاظی حملوں میں پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں ۔۔

صحافیوں کی بڑی تعداد بھی اس غیر سنجیدہ دوڑمیں شامل ہے ۔۔بظاہر سیاست دانوں کے حامی ہیں،کوئی نواز شریف کو سپورٹ کر رہا ہےکوئی فضل الرحمان کواور کوئی عمران خان کو اور کیچڑ بھی انہیں شخصیات پر اچھالا جا رہا ہے ۔۔

اپنے اپنے لیڈرز کے دفاع کے لیے بھونڈا انداز اپنایا جاتاہے۔عمران خان کی اہلیہ اور نواز شریف کی بیٹی مجرمانہ حملوں کا ہدف ہیں۔ ۔۔ مضافات کی خواتین طرزکی اس جنگ میں فریقین کے لیڈرز کوسوائے بدنامی کے اور کچھ نہ مل رہا۔

حیرت ہے ہم پھر بھی کہتے ہیں یہ سوشل میڈیا کا دور ہے،عوام کی آواز کوئی نہیں دبا سکتا ۔۔۔آپ خود فیصلہ کریں کیا عوام کی آواز ایسی ہونی چاہیے ۔۔۔گا لیا ں ،کردارکشی، لاحاصل بحث ہم کس طرف جا رہے ہیں؟

اگر عام آدمی کو ما فی الضمیر بیان کرنے کا پلیٹ فارم مل گیا ہے تو اس کامثبت استعمال ہونا چاہیے ۔۔ہمارے پاس بے شمار موضوعات موجود ہیں ۔۔ زمینی حقائق پیش نظر رکھ کر دلیل کے ساتھ بات کی جاسکتی ہے ۔

پیرنی نے عدت پوری نہیں کی مریم نواز گھر سے بھاگ گئی تھی ایسے زیریلے جملوں سے پارٹی لیڈرز یا پاکستان کی کیا خدمت ہو سکتی ہے ؟ ایسا کرنے والے نفرت پھیلاتے اور معاشرے کو آلودہ کرتے ہیں۔

بہت سارے محترم صحافی ،لکھاری اور پڑھے لکھے لوگ اس لا حاصل جنگ کا حصہ بنے ہوئے ہیں،جو سمجھتے کہ وہ رائے عامہ ہموار کر رہے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔۔ان کی جگت بازی اور الزام تراشی خود ان کی اپنی سا کھ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

آپ کبھی اندازہ لگائیں لوگ آپ کے اٹھنے بیٹھنے بات کرنے اور لکھنے کے انداز کو نوٹس کر رہے ہوتے ہیں،اچھی دلیل سے کوئی متفق نہ بھی ہو لیکن متاثر ضرور ہوتا ہے ۔۔لیکن اچھی بات بھی منفی پیرائے میں بیان کی جائے تو غلط تاثر چھوڑتی ہے ۔

فوج ہماری ہے۔ سیاسی لیڈرز بھی اور ادارے بھی۔ ۔غلط کام کا راستہ روکنے۔ ۔غلط بات کو ٹو کنے کا طریقہ بھی قانون ،تہذیب اور موثر دلیل کے ساتھ اپنایا جاسکتا ہے۔ مہذب معاشرے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ کوہی شخص یا ادارہ آہین اور قانون سے بالا دست نہیں ہے۔

اسی سوشل میڈیا کی بساط پر ہمیں بہت سی ایسی چیزیں متاثر بھی کرتی ہیں اور اپنی طرف کھینچتی بھی ہیں۔ ۔سمجھدار لوگ کوئی تصویر شیئر کرتے کوئی بھی بات لکھتے ہوئے اس کے منفی پہلو کو پیش نظر رکھتے ہیں۔

شخصیات کے اسیر اوراپنی ذہنی حالت سے مجبور بہت سے لوگ ایسے الفاظ بھی لکھ ڈالتے ہیں جو خود ان کے بچے اور خواتین بھی پڑھ کر شرمندہ ہوتے ہونگے ۔۔جب ہم خود ذہنی آلودگی پھیلائیں گے تو معاشرتی اقدار کہاں بچیں گی۔

جیسے معاشرے میں، اداروں میں ،سیاسی جماعتوں میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں ،ایسے ہی سوشل میڈیا پر بھی اللہ کے بندوں کی ایک بڑی تعداد معاشرہ سازی کے لیے بھی کوشاں ہے ،دینی فریضے کی بھی تبلیغ کر رہی ہے اور مثبت ذہن سازی میں بھی مصروف ہے۔

مذہبی رجحان، سیکولر ذہنیت یاسوچ کے زاویوں پر قد غن کا کوئی مطالبہ نہیں ہے ۔۔صرف اتنی گزارش ہے ۔کسی شخص مسلک،مذہب،جماعت پر ذاتی حملے نہ کریں ۔کسی کو نیچااور غلط ثابت کرنے کے لیے غلط بیانی سے اجتناب برتیں۔ دلیل اورثبوت ہوں تو پھر غلط بات اور کام پر چپ نہ رہیں۔ اللہ پاک ہمیں سچ بات کر نے اور غلط سے بچنے کی توفیق عطا فرماہے۔

وہ جنگ اپنی اناوں کی لڑ رہے تھے مگر
لہو لہان ہوا شہر ان کے جھگڑوں میں

 
 

Comments are closed.