سرکاری اعلان ہوا ہے سچ بولو

سب دوست ٹی وی دیکھ رہے تھے، برطانیہ سے فون پر ہمارا پیارا بھائی اور دوست ثاقب راجہ بتا رہا تھا ائیر بلیو طیارہ کے اسلام آباد میں ہونے والے حادثہ کے بعد وہ موقع پر پہنچا، لائیو بیپر کے دوران ایک ادارے کے افسران کیمرہ کے ساتھ آ کر کھڑے ہو گئے۔
بیپر میں یہی کہہ رہا تھا کہ حادثہ ہوا ہے اور چونکہ سانحہ کو تھوڑی ہی دیر گزری تھی کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی تھی۔ ایسے میں بریک آئی اور میں کیمرے کے قریب آیا تو افسر نے مجھ سے ہاتھ ملا کر پوچھا: اے آر وائی کے رپورٹر آپ ہی ہیں۔
جی میں ہی ہوں، میں بولا تو انہوں نے کہا یہ گھٹیا خبر آپ نے ہی دی ہے، اس کا سورس بتائیں۔۔میں نے پوچھا میں نے کون سی خبر دی ہے؟۔
انہوں نے بتایا اے آر وائی پہ خبر چل رہی ہے کہ طیارہ کو اینٹی ائیر کرافٹ گن سے نشانہ بنایا گیا ہے۔میں حیران رہ گیا کیونکہ میں نے ایسی کوئی خبر نہیں دی تھی۔ میں نے فوراً فون ملایا کراچی ڈیسک پر اور ان سے کہا میں نے ایسی کوئی خبر نہیں دی یہ کیسے چل رہی ہے ؟۔
جواب ملا ، آپ بے فکر رہیں یہ خبر آپ کی نہیں ڈاکٹر شاہد مسعود کی ہے جو اسلام آباد سٹوڈیوز سے لائیو ہیں۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب کی جو پوزیشن ہمارے ادارے میں تھی کسی کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی کہ ان سے کچھ پوچھ سکیں پھر بھی میں نے ہمت کر کے ان کے موبائل پر فون کیااور پوچھا یہ کیا خبر ہے؟۔۔ اس کا سورس کیا ہے کیونکہ میری جان پر بنی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر شاہد مسعود بولے میرے ذرائع بہت پکے ہیں اور انہوں نے بتایا ہے ایوان صدر کے اوپر نصب اینٹی ائیر کرافٹ گن سے ائیر بلیو کے طیارہ کو بہت نیچی پرواز پر نشانہ بنایا گیا۔ آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
یہ ثاقب راجہ کی ایک کہانی ہے لیکن ہمارے ملک کے معالج خاص جن کے ہاتھ پاکستانیوں کی نبض پڑھ چکے ہیں وہ جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے، وہ اپنی سوچ کے خلاف کسی بھی رپورٹر کو برداشت نہیں کرتے اور جس رپورٹر سے کبھی بحث ہو جائے اسے دفتر سے نکلوانے کے لیے اپنی جان کا زور لگا دیتے ہیں۔
ان کی ٹویٹس گواہ ہیں ہمارے ایک رپورٹر دوست سے اختلاف ہونے پر قبلہ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ایک رپورٹر میرے خلاف سازش کر رہا ہے اور مجھے مارنا چاہتا ہے اگر مجھے کچھ ہوا تو ذمہ داری اس پر ہو گی حالانکہ ایسا کچھ نہیں تھا رپورٹر بے چارے کی ادارے کے صدر کے سامنے حیثیت ہی کیا ؟۔
بہرحال، ایئیر بلیو طیارہ حادثہ کی یہ خبر چھوٹی خبر نہیں تھی لیکن اس کے بعد اس خبر پہ مٹی ڈال دی گئی۔۔۔ کسی نے نہیں پوچھا ان ڈاکٹر صاحب سے ،خبر غلط ہوئی ہے اس کا ازالہ کیا ہے؟ لیکن چونکہ وہ رپورٹر نہیں اس لیے ان کی جان چھوٹ گئی۔ رپورٹر تو ایک خبر باؤنس ہونے پر نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن ایسے پیراٹروپرز آزاد ہیں جس کی بھی چاہیں پگڑی اچھال دیں۔
مزے کی بات کہیں یا افسوس کی لیکن ہمارے عوام کو بھی اب ایسی چٹخارے دار خبروں کی عادت ہو گئی ہے وہ مبشر لقمان ہوں، ڈاکٹر معید، ڈاکٹر دانش، ڈاکٹر عامر لیاقت یا ڈاکٹر بابر اعوان۔۔ شیخ رشید ہوں یا ڈاکٹر طاہر القادری۔۔۔ سب ایسی ہی کئی خبریں مسلسل کئی سال سے سنا رہے ہیں اور لوگ ایسی باتیں سن کر خوش ہوتے ہیں۔
ریٹنگ بڑھتی جاتی ہے ، مالکان کو اشتہارات ملتے رہتے ہیں۔۔ اس لیے ا ن کی اب کوشش ہوتی ہے کہ پیشہ ور صحافی کے بجائے دندان سازوں، فیشن ڈیزائنرز، فلم پروڈیوسروں، ناکام وکیلوں، سیاستدانوں اور زبان دراز مولوی حضرات کو اینکر بنایا جائے تاکہ ریٹنگ کی ریوڑیاں زیادہ سے زیادہ حاصل کی جا سکیں۔
زینب قتل کیس میں جب قوم مجرم کو سزا ملتا دیکھنا چاہتی تھی عین وقت پر نیم ڈاکٹر نے سینتیس اکاؤنٹس کی جعلی خبر چلا دی، قوم کی توجہ اس قتل کیس سے ہٹ کر بینک اکاؤنٹس پر چلی گئی، ٹھیک اس طرح جس طرح ڈاکٹر نے نجم سیٹھی کے پینتیس پنکچر کی خبر عمران خان کے ذریعہ چلوائی، وہ بھی غلط ثابت ہوئی جس پر عمران کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا لیکن الحمد للہ آج بھی ڈاکٹر صاحب کی بے عزتی کبھی نہیں ہوئی۔
میراایک سوال ہے ،ایک صحافی چاہے جتنی اچھی چیر پھاڑ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو کیا اسے سرجن بنایا جا سکتا ہے؟۔ کیا بہترین سے بہترین جرح کرنے والے شاہزیب خانزادہ یا حامد میر کو بار کونسل کی ممبر شپ مل سکتی ہے؟۔ نہیں جناب، ایسا نہیں ہو سکتا۔
صرف وکیل ہوناکافی نہیں پریکٹس کے لیے بار ایسوسی ایشن کی رکنیت ضروری ہے، ڈاکٹر ہونا بہت نہیں پریکٹس کرنے کے لیے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا ممبر ہونا ضروری ہے ، بس یہ صرف صحافت کی بدقسمتی ہے کہ جو شخص تمام شعبوں میں ناکام ہو جائے وہ بغیر کسی کوالیفکیشن کے ٹی وی چینل پر بیٹھ کر سینئر تجزیہ کار کہلایا جا سکتا ہے۔
ٹی وی چینل یا اخبار شروع کرنے کے لیے کسی قسم کی اہلیت کا کوئی معیار نہیں۔ اسی لیے انہیں بھی پروگرام میں بٹھانے کے لیے جو بھی میسر ہو اسے بٹھا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کا معاملہ ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ عدالت کے لیے بھی ٹیسٹ کیس ہے۔ اگر اس ڈاکٹر کو جعلی خبر دینے پر کوئی سزا نہیں دی گئی تو پھر آج سے ہر صحافی بھی غلط خبر دینے میں آزاد ہو گا۔
ڈاکٹر اگر پروفیشنل صحافی ہوتا تو وہ منصور علی خان کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ نہیں کہتا میں نے خبر دی ہے تحقیق کرنا میرا کام نہیں۔۔ کیونکہ صحافتی اصولوں کے مطابق پہلے تحقیق پھر خبر ہوتی ہے جبکہ ڈاکٹری اصولوں کے مطابق پہلے چیر پھاڑ کرو پھر سلائی۔۔عدالت میں ڈاکٹر شاہد مسعود کوئی بھی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے، وہ پنجاب حکومت کے خلاف بات کرتے رہے جس پر عدالت انہیں کہتی رہی کہ کیس پر بات کریں لیکن ان کے پاس کوئی بات ہوتی تو وہ بات کرتے،جو پرچی انہیں دوران پروگرام پکڑائی گئی تھی وہ انہوں نے حسب عادت پڑھ دی تھی۔
میرے خیال میں وقت آ گیا ہے کہ ٹی وی سکرین پر غیر صحافیوں کو اینکر بننے سے روکنے کے لیے قانون بننا چاہئے۔ انہیں سکرین پر بیٹھنے کا بہت شوق ہے تو مہمان کے طور پر بیٹھ سکتے ہیں لیکن میزبا نی کے فرائض کسی صحافی کو ہی انجام دینا چاہیئں۔پیراٹروپرز کبھی بھی تیز ہوا کی صورت میں غلط جگہ لینڈنگ کر سکتے ہیں۔
اس وقت ملک میں جو ہیجان برپا ہے اسے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک جھوٹے کو سزا دی جائے تاکہ دیگر جھوٹوں کو جھوٹ پھیلانے سے روکا جا سکے، ورنہ راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے
جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے سچ بولو
سرکاری اعلان ہوا ہے سچ بولو۔۔۔۔
گھر کے اندر جھوٹوں کی ایک منڈی ہے
دروازے پہ لکھا ہوا ہے سچ بولو۔۔۔۔

Comments are closed.