باجی گڑیا سے قومی لیڈر تک

سہیل وڑائچ

ایک عام سی گھریلو لڑکی تھی ماں باپ کی لاڈلی بیٹی۔ والد اسے گڑیا بیٹی کہہ کر پکارتے جبکہ بہن بھائی اور باقی گھر والے باجی گڑیا کہہ کر بلاتے تھے۔

وہ شرمیلی تھی اور اس کے آنسو اس کی ناک پر رکھے ہوتے تھے ادھر کچھ خراب ہوتا، ادھر اس کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگتے وہی بات بات پر رو دینے والی لڑکی اب مریم نواز بن کر سٹیج پرسے سب طاقتوروں کو للکارتی ہے جیل میں دال روٹی کھاتی ہے مگر مراعات نہیں مانگتی اب اس کی آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے شعلے نکلتے ہیں جو اپنی گفتگو سے مخالفین کو بھسم کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

گڑیا سے مریم نواز اور عام سی لڑکی سے قومی لیڈر بننے تک کے سفر میں بنیادی بات انکی اپنے والد میاں نواز شریف سے قربت ہے والد لندن میں ہیں اور بیٹی جاتی امراء میں مگر دونوں کے درمیان دن میں تین چار بار گفتگو ضرور ہوتی ہے۔

وہ اپنے والد میاں نواز شریف کی سب سے قریبی مشورہ دان ہیں تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف ذاتی طور پر بہت کم گو ہیں اپنے جذبات اور تاثرات کا اظہار آسانی سے نہیں کرتے،مریم نواز کو طویل رفاقت کی وجہ سے البتہ اب یہ ملکہ حاصل ہوچکا ہے کہ وہ اپنے والد کی خاموشی کے باوجود ان کے چہرے پر موجود تاثرات کو پڑھ کر جان لیتی ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ بقول مریم نواز وہ اپنے والد کے چہرے پرجو پڑھتی ہیں وہ اکثر اوقات درست نکلتا ہے۔

مریم نواز نے اپنی گرفتاری سے پہلے مزاحمتی بیانیے کے تحت منڈی بہاؤالدین، پاک پتن اور حافظ آباد جیسے شہروں کے جو دورے کیے تھے اس نے ان کی کرشمہ ساز شخصیت ہونے پر مہر لگا دی تھی۔

بعد ازاں جیل کی سختیوں کو جھیل کر وہ کندن ہو کر باہر نکلیں تو اندازہ یہ تھا کہ وہ جدھر جائیں ادھر انسانوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جائیں گے مگر افسوس ان کی اپنی پارٹی ان کی حیثیت اور قدروقیمت کا اندازہ نہ کر سکی۔

گوجرانوالہ جلسہ میں جانے کے لیے جو روٹ استعمال کیا گیا وہ غیر سیاسی سوچ کے زیر اثر تھا حالانکہ سیاسی نقطہ نظر سے مریم نواز کو فیروزپور روڈ اور مال روڈ سے گزر کر شاہدرہ جانا چاہیے تھا جگہ جگہ استقبالی کیمپ لگے ہوتے مسجد کے لاؤ ڈ سپیکرز میں اس کی آمد کا اعلان ہوتا اناؤنسمنٹ والی پک اپس ماحول کو گرماتیں۔

اگر ایسا ہوجاتا تو لاہور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے 10 اپریل والے جلسے اور جلوس کی یاد تازہ ہو جاتی مگر نہ جانے کس خدشے کے تحت مریم نواز کے جلوس کو لاہور شہر سے باہر شاہدرہ کے راستے گزارا گیا۔

اس غیر سیاسی حکمت عملی سے مریم نواز کی طرف سے جتنے بڑے پاور شو کی امید تھی وہ پورا نہ ہوسکی۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ مریم نواز کا پوٹنشل اور سیاسی ٹیلنٹ کہیں زیادہ ہے لیکن ابھی تک اسکا صحیح استعمال نہیں ہو سکا۔

گو مریم نواز کا سیاسی قد اپنے والد کی وجہ سے ہے مگر سچ یہ ہے کہ والد نے اسے اپنی ساتھ والی نشست اتنی آسانی سے نہیں دی والد مریم کو سیاست میں لانے اور اسے رول دینے کے بارے میں تا دیر ہچکچاتے رہے ۔نواز شریف اپنے ارد گرد کیلوگوں کو گہری پرکھ پرچول سے گزارتے ہیں مریم کو ن لیگ کے باقی لوگوں کی نسبت بہر حال یہ استحقاق تو حاصل تھا کہ 2000ء سے لیکر 2020ء تک وہ اپنے والد کے ساتھ ہر روز چار سے پانچ گھنٹے گزارتیں اور اس روز کی سیاست کے داؤ پیچ اور راز و نیاز پر گفتگو کرتیں۔

جب میاں نواز شریف پاکستان میں تھے تو مسلم لیگ ن کی قیادت درجہ بندی میں مریم نواز کا تیسرا نمبر تھا جبکہ ان کے چچا بلحاظ عہدہ مسلم لیگ ن کے صدر بھی \ہیں اور میاں نواز شریف کے سالہا سال سے نمبر 2 بھی۔ مریم نواز کو تیسری پوزیشن بھی بڑی مشکل سے ملی اس پوزیشن پر سالہا سال سے حمزہ شہباز شریف کی نامزدگی ہو چکی تھی۔

پارٹی کے ہر ضمنی انتخاب کی ذمہ داری حمزہ شہباز شر یف کی ہوتی تھی پنجاب کی گورننس میں بھی حمزہ شہباز کی اسٹیک شامل تھی مگر مریم نواز نے اپنے والد کے مزاحمتی بیانیے ووٹ کو عزت دو کو آگے بڑھ کر اور عوام میں مقبولیت حاصل کر کے غیر محسوس طریقے سے پارٹی کی نمبر 3 پوزیشن پر اپنا نام لکھوا لیا اور پھر تقدیر کے پہیے نے بھی عجیب چکر لیا کہ آخری وقت میں ان کا جانا رک گیا۔

اسی اثناء میں پہلے حمزہ اورپھر شہباز شریف بھی گرفتار ہوگئے اب مریم نواز کے لئے کھلامیدان ہے بشرطیکہ کہ وہ اپنے مہرے احتیاط سے کھیلیں۔

مریم نواز کی بطور قومی لیڈر سیاست کا باقاعدہ آغاز گوجرانوالہ کے جلسے سے ہوا اس جلسے کے استقبالی جلوس کو طوفان تو کہہ سکتے ہیں بھونچال نہیں کیونکہ مریم نواز کی حیثیت اور اسٹیٹس سے کم تھا اور اس کمزوری کی وجہ منصوبہ بندی تھی اگر یہی استقبالی جلوس مال روڈ سے گزرتا تو شاید آج پاکستان کی سیاست کے بیانیے میں کئی نئے فیکٹر زیر بحث آ رہے ہوتے۔

مریم نواز گوجرانوالہ کے جلسے میں گئی تو سبز لباس پہن کر پاکستانی قومیت کا علامتی پیغام دیا ۔کوئٹہ کے جلسے میں وہ بلوچی کڑھائی والا لباس پہن کر شریک ہوئیں یوں انہوں نے بلوچستان سے اپنی یکجہتی کا اظہار کیا ۔وہ لباس کا انتخاب ہو، لفظوں کا چناؤ ہویا پھر نشست و برخواست کے آداب ہر معاملے میں پہلے سے طے شدہ اور سوچے سمجھے راستے پر چلتی ہیں۔

اپنے والد کی طرح وہ اپنے ملاقاتیوں کی نشستوں اور ان کے کھانے کا مینیو تک خود ترتیب دیتی ہیں وہ شرمیلی لڑکی جو بچپن میں ٹپ ٹپ آنسو گراتی تھی اب کبھی بلاول بھٹو سے مذاکرات کرتی ہیں تو کبھی سردار اختر مینگل سے سنجیدہ بات چیت ۔ سچ تو یہ ہے کہ مریم نواز نے اپنی شخصیت کی تشکیل اور تعمیر پر بڑی محنت کی ہے وہ دنیا بھر کی خبروں سے آگاہ رہتی ہیں ٹویٹر اور فیس بک کے ٹرینڈز کیا ہیں انہیں بخوبی علم ہوتا ہے قومی سیاست میں داخل ہوتے ہوئے وہ بہت محتاط ہے بڑے لیڈرز کے ساتھ ملاقاتوں اور جلسوں میں کی جانے والی تقریروں میں ابھی بے ساختگی نظر نہیں آئی،ہو سکتا ہے کہ اگلے جلسوں میں اور زیادہ پر اعتماد ہو کر بات کریں۔

دلچسپ ترین معاملہ یہ ہے کہ قومی سیاست میں انٹری کے باوجود ن لیگ کی سیاست میں پوری طر ح انٹر نہیں ہوئی بلکہ کئی دفعہ تو لگتا ہے کہ وہ پارلیمانی گروپ اور پارٹی کے اندرونی گروپوں کی سیاست میں فی الحال داخلہ نہیں چاہتیں شاید انہیں خدشہ ہے کہ ان کے داخلے پر کوئی نئی گروپ بندی نہ ہو جائے۔

مریم نواز کو علم ہو نہ ہو وہ مزاحمتی سیاست کا استعارہ بن چکی ہیں اب انہیں اپنے اس امیج کی نہ صرف حفاظت کرنی ہو گی بلکہ اسے مضبوط بنانے کے لیے اپنے موقف پر قائم رہنا ہو گا۔

تیسری دنیا کے ملکوں میں جابر اور ظالم کے خلاف جدوجہد کرنے والا اگر بہادری دکھائے تو ہیرو بن جاتا ہے مریم نے جیل جس بہادری سے کاٹی اس نیاس کے امیج کو مزید کرشماتی بنا دیا ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ ن لیگ کی پارلیمانی قیادت مصالحت کی خواہاں ہے ایسے میں مزاحمت کا استعارہ”مریم” کے لیے پالیسیاں تبدیل کرنے کی کتنی گنجائش ہو گی ۔
(بشکریہ اردو نیوز)

Comments are closed.