نجی بینک کا کورونا ریلیف پر دہرا معیار، صارفین بےبس، حکومت تماشائی

فوٹو: یو ایس اے ٹو ڈے فائل

قلندر آباد(صفدر حسین)نجی بینک(جے ایس)نے حکومت اور سٹیٹ بینک کی طرف سے کورونا وبا کے باعث ایک سال ادائیگیاں موخر کرنے کے اعلان اور نوٹیفکیشن کے باوجود ہزاروں افراد کی گاڑیاں بغیر نوٹس ضبط کرلیں، قرضوں کی قبل از وقت ادایگی کیلئے دبا ڈالا جا رہا ہے اور عدم ادائیگی پر املاک نیلام کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں.

کرونا لاک ڈان کیدوران لوگوں کی معاشی صورتحال بگڑنے پرحکومت نے سٹیٹ بینک کے زریعے بینکوں کے قرضے ایک سال کیلیے موخر ادائیگی کی بنیاد پر ڈمپ یا جزوی ادائیگی کرنے کی سہولت دی تھی نجی بینکوں اور بالخصوص متذکرہ بینک نے یہ سہولت یکسر ختم کر دی ہے۔

تفصیلات کے مطابق ایک نجی بینک (جے ایس بینک) نے سال 2016 سے لیکر 2018 کے دوران بڑے پیمانے پر شہریوں کو گاڑیاں لیز پر فراہم کیں لیکن 2020 میں جبکہ پوری دنیا بالخصوص پاکستان کرونا وبا اور لاک ڈان کی وجہ سے بدترین معاشی بدحالی کا شکار ہکے.

بے روزگار اور مزدور پیشہ طبقہ کیلئے جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنا محال ہو رہا ہے ایسے میں جے ایس بینک نے معاشی طور پر دبا کا شکار سیکڑوں گاڑی مالکان سے ان کے روزگار کا زریعہ بھی چھین لیا۔

اس حوالے سے شفیق احمد (فرضی نام)نامی ایک شخص نے بتایا کہ انہوں نے 2018 میں کراچی سے جے ایس بینک آٹو فنانس کے تحت پانچ سالہ مدت کیلیے ایک عدد آلٹو گاڑی حاصل کی تھی ۔

کیونکہ وہ گذشتہ چند سال سے آن لان ٹیکسی سروس اوبر کریم کیساتھ کرایہ کی گاڑی چلا رہے تھے اس دوران بینک کی جانب سے پیشکش کا فادہ اٹھاتے ہوئے گاڑی خرید لی۔جسے وہ پہلے کراچی میں چلا کر اپنے روزگار کا بندوبست کرتے رہے ۔

لیکن 2019 میں صحت کے مسال کی وجہ سے انہوں نے اسلام آباد منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اور وہ باقاعدگی سے بینک کو اقساط جمع کرواتے رہے۔لیکن رواں سال مارچ میں کرونا وبا کے پیش نظر ملک لاک ڈان کی وجہ سے آن لان سروس اور ٹیکسی سروس معطل کر دی گی اور کی ماہ گھر میں بیکار بیٹھنے پر مجبور ہوگے ۔

اسی دوران حکومت کی جانب سے کرونا لاک ڈان کے پیش نظر بینک قرضوں کی اصل رقم کی وصولی کے لئے ایک سال تک ریلیف دینے کا اعلان کیا ۔دو تین ماہ قبل جب لاک ڈان میں نرمی ہوی تو وہ اپنے کام پر واپس آئے اور حتی المقدور بینک کو ادایگی کا سلسلہ شروع کردیا۔

شفیق احمد کے بقول انہیں 15 نومبر کی دوپہر کو بینک کی جانب سے اپنے واجبات فوری طور پر ادا کرنے کی ہدایت کی گی ۔لیکن اسی روز چند گھنٹے بعد راولپنڈی میں واقع اس بینک کی برانچ کے اہلکاروں نے ان سے اسلام آباد میں گاڑی زبردستی چھین لی اور مری روڈ برانچ پر لے گے۔

گاڑی ضبط کرتے ہوے انہیں خالی ہاتھ لوٹا دیا اوراگلے روز بینک آنے کو کہا ۔اگلے روز جب وہ اس برانچ پر گے تو وہاں موجود اہلکاروں نے قسطوں کی واجب الادا رقم جو کہ ڈیڑھ لاکھ روپے بتای گی تھی دو تین دن میں جمع کروانے کو کہا گیا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کی گاڑی کو نیلام کرنے کی دھمکی دی۔

شفیق احمد بدترین معاشی صورتحال کے باوجود انہوں نے اپنے دوست احباب سے قرض لیکر جب وہ جمع کروانے مذکورہ برانچ پر پہنچے تو وہاں موجود ایک ذمہ دار نے انہیں بتایا کہ بینک نے اب پالیسی تبدیل کر دی ہے۔بتایا گیا کہ آپ کو صرف اسی صورت گاڑی دوبارہ مل سکتی ہے جب آپ اپنی گاڑی کی مکمل ادایگی کرینگے بصورت دیگر اگلے دو دن میں آپ کی گاڑی نیلام کر دینگے۔

شفیق احمد کے مطابق بینک کی طرف سے یہ صورتحال تب پیدا کی گئی جب بینک کے ساتھ معاہدے کی مدت میں ابھی تین سال باقی تھے، گاڑی کی باقی رقم ادایگی کی مدت 2023تک ہے۔جبکہ وہ واجب الادا رقم کا تقریبا آدھا حصہ ادا کر چکے ہیں۔ان حالات میں اگر بینک معاہدے کے تحت انہیں گاڑی واپس نہیں کرتا تو انہیں شدید معاشی پریشانی سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔

دوسری جانب اس حوالے سے جب مذکورہ بینک کے متعلقہ اہلکاروں کیساتھ بات کی گی تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ قرضوں کی واپسی کے حوالے سے ریلیف کی حکومتی پالیسی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔چونکہ معاشی سرگرمیاں کم ہونے کی وجہ سے تمام مالیاتی ادارے خود دبا کا شکار ہیں اس لیے بینک اپنے مارکیٹ قرضوں کی واپسی کیلئے ہر حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف ناردرن ریجن میں ہی مذکورہ بینک نے تقریبا دو ہزار سے زائد گاڑیاں ضبط کی جا چکی ہیں جن میں اکثریتگاڑیاں کی محض ایک یا دو اقساط واجب الادا ہیں یا جنکی ادایگی کی مدت میں ابھی کئی ماہ باقی ہیں ۔لیکن انہیں مکمل ادایگی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

مدت معاہدہ سے قبل گاڑیوں کی پکڑ ، نیلامی

واضح رہے کہ حالیہ کچھ عرصہ کے دوران پاکستان میں آن لان ٹیکسی سروس متعارف ہونے کے بعد بینکوں سے لیز پر گاڑیاں حاصل کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا اور ان کی بڑی تعداد چھوٹی گاڑیوں پر مشتمل ہے جو کم خرچ ہونے کے باعث زیادہ پسند کی جاتی ہیں اور معقول آمدنی کا زریعہ ہیں۔

اس بارے میں بارے جب بینکنگ سیکٹر سے وابستہ چند لوگوں سے بات چیت کی گی تو انہوں بینک کے اس فعل کو سراسر غیر انسانی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بینک طے شدہ مدت سے قبل نہ تو پوری رقم کا تقاضا کر سکتا ہے اور نہ گاڑی کو بلا نوٹس ضبط کر سکتا ہے البتہ مقررہ مدت کے بعد اگر کوی گاڑی ڈیفالٹ کرتی ہے تو بینک ضابطے کے تحت کاروای کا مجاز ہے ۔

لیکن ایسے وقت میں جبکہ کرونا لاک ڈان کی وجہ معاشی ابتری کے آثار ہیں ایسے میں بینکوں کی جانب سے ہزاروں لوگوں سے ان کے روزگار کا زریعہ چھیننا یا دھونس دھمکی کے زریعے انہیں بلیک میل کرنا سراسر غیرقانونی فعل ہے جس کا بینکنگ سیکٹر کی نگرانی کی مجاز اتھارٹیز کو فوری نوٹس لینا چاہئے۔

کورونا ریلیف کے نام پر سود ڈبل کردیا گیا

ذرائع کے مطابق ایسی ہی مشکلات کا سامنا شہری دیگر نجی بینکوں میں بھی کررہے ہیں ، سلک بینک، حبیب بینک سمیت باقی بینک بھی سٹیٹ بینک کے ریلیف پیکیج کی اپنی اپنی تعریف کر رہے ہیں اور کورونا ریلیف کے نام پر سود ڈبل کردیا گیاہے، واجب الادا رقم کی ادائیگی موخر کرکے سود وصول کیا جارہاہے جب کہ سال بعد جب ادائیگیاں شروع ہوں گی تب پھر بھی صارفین کو ساتھ سود ادا کرنا پڑے گا۔

یعنی سٹیٹ بینک ریلیف کے نام پر نجی بینکوں کو رقوم بٹورنے کا ایک منفرد ذریعہ مل گیاہے جس کی مد میں وہ موخر ادایئگیوں کے نام پر ایک سال تک اپنے دیئے گئے قرضوں پر سود اضافی وصول کریں گے ، کریڈٹ کارڈ ز پر بھی شہریوں کو ئی چھوٹ یا ریلیف نہیں دیا گیا۔

حکومت کی طرف سے بینکوں کے قرضے ایک سال تک ادا نہ کرنے کا سیاسی اعلان کردیاگیا ، میڈیا میں رپورٹس شائع ہو گئیں لیکن عمل درآمد کی بجائے موخر ادائیگیاں صارفین کے گلے پڑی ہوئی ہیں اور صارفین کی چیخ و پکار کے باوجود متعلقہ حکومتی حکام خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، شروں میں 3لاکھ تک قرض اور کریڈٹ کارڈز ادائیگیاں معاف کرنے کی تجویز بھی دی گئی لیکن اس پر بھی عمل نہ ہوا۔

Comments are closed.