صدارتی ایوارڈ،ریاست کا خدمات پر اعتراف اطمینان بخش ہے، ڈاکٹراشرف خان

محبوب الرحمان تنولی

اسلام آباد:قائد اعظم یونیورسٹی کے ٹیکسلا انسٹی ٹیوٹ آف ایشئن سولائزیشن کے ڈائریکٹر پروفیسرڈاکٹر محمد اشرف خان فنون آرکیالوجی میں صدارتی ایوارڈ ملنے پر بہت خوش ہیں ، ڈاکٹر اشرف خان کا کہنا ہے کہ یوں تو مجھے بہت ایوارڈز ملے ہوئے ہیں لیکن ریاست کی طرف سے خدمات کے اعتراف کا احساس ہی کچھ اور ہوتاہے۔

پروفیسر ڈاکٹر اشرف خان نے ، زمینی حقائق ڈاٹ کام ، سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب والدین کی دعاوں کولیگز اور طلبہ کی نیک خواہشات کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کی طرف سے مجھے اتنے بڑے صدارتی ایوارڈ ( تمغہ امتیاز) سے نوازا گیاہے ۔

ڈاکٹر اشرف خان کاکہنا تھا کہ میں تو ہمیشہ سے اس بات کاقائل ہوں کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی ، مگر ایسے میں جب حکومتی سطح پر آپ کی خدمات کا اعتراف کیا جاتاہے تو اس سے اطمینان ہو جاتاہے کہ ہمارے کام ، ریسرچ کو اوپر سطح تک بھی دیکھا جارہاہے۔

انھوں نے کہا کہ صدارتی ایوارڈ ہر ایک کو نہیں ملتا لیکن یہ بات ضرور ہے کہ جب آپ کے حلقہ میں موجود کسی شخص کی خدمات کا اعتراف ہوتا ہے تو پھر ساتھ کام کرنے والوں کو بھی تحریک ملتی ہے، یہ ریاستی شاباش محنت کرنے والوں کی کوششوں کو تقویت بھی دیتی ہے اور ان کیلئے مشعل راہ ثابت ہوتی ہے۔

فوٹو : سکرین گریب

واضح رہے 23مارچ 2021کو صدارتی ایوارڈز دیئے گئے تھے ، گورنر ہاوس پشاور میں گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان نے صوبے کی جن10 شخصیات کو اعزازات سے نوازا ہے ان میں پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف خان سرفہرست ہیں جن کو فنون آرکیالوجی میں مثالی خدمات پر صدارتی ایوارڈ تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔

پروفیسر محمد اشرف چارسدہ خیبر پختونخوا میں پیدا ہوئے،آرکیالوجی میں ماسٹر پشاور سے جب کہ بدھست آرٹ آف گندھارا میں پی ایچ ڈی پیرس یونیورسٹی سے کی۔یہ آثار قدیمہ اور عجائب خانہ میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں جن کااعتراف سوات میوزم،ٹیکسلا اور اسلام آباد کرچکے ۔

پروفیسر اشرف خان ملک بھر میں آثار قدیمہ کی مہمات کا نہ صرف حصہ رہے ہیں بلکہ پاکستان میں اس سطح کے تحقیقی عمل کے بانیوں میں سے ہیں، صرف پاکستان ہی نہیں ڈاکٹر اشرف ریسرچ کیلئے یورپ،وسطی ایشیا،ایشیا،مشرقی ایشیا اور شمالی امریکہ کی مہمات کا بھی حصہ رہے ہیں۔

1983سے1989تک فرانس میں قیام کے دوران ڈاکٹر محمد اشرف نے یورپ کے مختلف میوزمز کے دورے کئے، انھوں نے یونیسکو اور جاپان سے عجائب کی تعلیمی سرگرمیوں میں کورسز بھی کئے، انھوں نے سوات اور ٹیکسلا میں گندھارا تہذیب کے آثار اور تحقیق پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔

ڈاکٹر محمد اشرف خان کو فرانسیسی حکومت نے،شیولیری ڈی ایل آرڈر، ڈیس آرٹ ڈیس لیٹرز سے بھی نوازا ہے جب کہ پاکستان میں فرنچ سپیکنگ ورلڈ ڈے کے موقع پر فرانس حکومت کی طرف سے انعام دیاگیا، وہ اب تک آرکیالوجی کے تحقیقی عمل کے دوران قومی اوربین الاقوامی سطح پر 100سے زائد ریسرچ آرٹیکلز بھی لکھ چکے ہیں۔

متذکرہ وسیع تحقیقی عمل کے دوران وہ اس شعبہ میں حصول تعلیم کیلئے کوشاں طلبہ و طالبات کیلئے اتنی روشنی چھوڑ گئے ہیں جن سے کئی دہائیوں تک سٹوڈنٹس مستفید ہوتے رہیں گے۔ اس دوران انھیں قومی و بین الاقوامی سطح پر کام کا صلہ ملتا رہا ہے ان کی خدمات کااعتراف بھی ہوا انعامات بھی ملے ۔

صدارتی ایوارڈز کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف خان کہتے ہیں اس سارے عمل کے بعد صدارتی ایوارڈ مل جانا ایسے ہی ہے کہ جیسے سارے سفر کی تھکان اتر گئی ہو ۔ میرے پیچھے آنے والوں کیلئے ایک مثال بھی قائم ہو گئی ہے کہ اگر آپ محنت کریں گے تو وہ رائیگاں نہیں جائے گی۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کیا ارادے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ مجھے لگتا نہیں ہے کہ میں آثار قدیمہ کے حصار سے باہر نکل پاوں۔۔ میں نے اس کام کو پوری زندگی دے دی ہے اب اس سے جدا ہو کر کیسے رہا جاسکتاہے۔ اور نہ ہی میرے سٹوڈنٹس مجھے گھربیٹھنے دیں گے۔

Comments are closed.