صحافت یا لا وارث حسینہ ؟

محبوب الرحمان تنولی

پاکستان میں صحافت ایک ایسی لاوارث حسینہ بن چکی جس کے پیچھے ہر جاگیر دار، وڈیرہ رال ٹپکا رہا ہے۔ اسے پانے کی خواہش میں در بدر ہونے کو تیار ہے لیکن کوئی اس کی عزت بچانے کو تیار نہیں۔۔کہنے کو تو پاکستان میں ہر حکومت آزادی صحافت پر یقین رکھتی آئی ہے لیکن تب تک جب تک کو ئی صحافتی ادارہ حکومتی راگ الاپتا رہے۔۔ مجال ہے جو حکومتوں، شخصیات، اداروں کی کمزوریاں ، بے قاعدگیاں سامنے لانے کی کوئی جرات کرے ۔پھر آزادی صحافت کے نعرے لگانے والے دو قدم آگے آ کر خود صحافت کا گلہ گھونٹنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔۔اس وقت مجھے بھی بہت حیرت ہوتی ہے جب میں اپنی آنکھوں سے صحافتی تنظیموں کے بعض لیڈرز کو مالکان کی انگلیوں پر ناچتا دیکھتا ہوں۔۔ صحافیوں میں تقسیم ڈالتے اور مالکان کے مفادات کاتحفظ کرتے ہیں اور آزادی صحافت کے دن یہی پوسٹر اٹھا کرساتھیوں کو بے وقوف بنانے آگے آگے ہوجاتے ہیں۔

آج تین مئی ہے اور آج اقوام متحدہ کی جانب سے 3 مئی کو ہر سال آزادی صحافت کا دن منایا جاتا ہے،بظاہر ریلیاں نکلتی ہیں۔۔ بڑی بڑی تقریبات ، کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ سیاستدان، مدبر، مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین ان تقریبات سے خطاب میں آزادی صحافت کے وہ، وہ اصول بتاتے اور جتاتے ہیں جو نو مولود صحافتی نوجوانوں کو پتہ بھی نہیں ہوتا۔۔ مقررین اٹھ کر ضیاء دور کے کوڑے کھانے کو بطور سند پیش کرتے ہیں۔۔چند گھنٹوں بعد بساط لپٹتی ہے۔۔ اسی تقریب میں شامل دو رپورٹرز۔۔ تین کیمرہ مینوں اور دیگر کچھ سٹاف کے متعلقہ اداروں سے فارغ کئے جانے کی اطلاعات آ جاتی ہیں۔۔ مقررین کی بلا سے۔۔۔ اب جو ہوتا ہے ہوتا رہے ۔۔ وہ تواپنے حصے کی تقریر کر کے جاچکے ہیں۔۔ بلکہ وٹس اپ پر دوستو ں کو اپنے روح پرور خطاب کی ویڈیوز شیئر کرکے داد سمیٹنے لگ جاتے ہیں۔

یہی حال بڑی بڑی ریلیوں کا ہوتا ہے۔۔ شعلہ بیاں تقاریر ۔۔ حکومتوں سے ٹکرا جانے کے دعوے۔۔ کسی صحافی کو بھوکا نہیں مرنے دیں گے ۔ حکومتی تقریبات کا بائیکاٹ کریں گے۔۔ آج پی آئی ڈی کی پریس کانفرنس کوئی اٹینڈ نہیں کرے گا ۔۔ دیکھتے ہیں حکومت ہمارے بغیر جھوٹے دعوے کیسے عوام تک پہنچا سکتی ہے؟ ۔۔۔ تقریر ختم کرتے ہی کوئی دل سے بولنے والا صحافتی رہنما منظر سے ہٹتا ہے ۔۔ آفس سے کال آ جاتی ہے۔۔ کسی مالک کی۔ کسی متعلقہ افسر کی یا افسر نما مالکان کے ٹاوٹ کی ۔۔ یہ تم نے کیا بکواس کی ہے؟ ۔۔ ہم پی آئی ڈی کی پریس کانفرنس کا بائیکاٹ نہیں کررہے ہیں۔۔بڑے لیڈر بنے پھرتے ہو۔۔ تمہیں پتہ ہے ۔ مالک کے پلاٹوں کی فائل سی ڈی اے میں پڑی ہے۔۔ ایف بی آر میں انکم ٹیکس پر رولا پڑا ہوا ہے۔۔ مالک نے کل نیب میں پیش ہونا ہے اورتولیڈری چمکا رہا ہے۔

بھاڑ میں گئی آزادی صحافت ۔۔تنخواہ نہ ملنے پر خود کشی کرنے والے صحافی کے حق میں مظاہرہ کے دوران صحافتی لیڈر کے اعلان کے باوجود مالکان پی آئی ڈی کی پریس کانفرنس کا بائیکاٹ نہیں کرنے دیتے ۔۔ اعلان کرنے والے لیڈر کی جگہ دوسرا رپورٹر چلا جاتاہے۔۔ کسی کو نوٹس مل جاتا ہے ۔۔ کسی کو آئندہ ایسی حرکت سے باز رہنے کیلئے کہہ دیا جاتاہے۔۔ بعض نرالے رہنما اس تقریب میں بھی وکٹ کے دونوں اطراف اس مہارت سے شارٹ کھیل جاتے ہیں کہ سامعین کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ ہر دلعزیز رہنما کس کی وکالت کررہے ہیں۔۔پاکستان میں صحافت کو کسی حکومت ، ادارے، یا خود مالکان اور صحافتی تنطیموں نے سنجیدہ لیاہی نہیں ہے۔۔ ہر کوئی اپنے مفاد کیلئے آزادی صحافت کا نعرہ بلند کرتاہے۔۔ جہاں اس کے مفاد کا اسٹیشن آتا ہے ۔۔یہ اتر جاتاہے۔۔بد قستمی سے اب تو صحافت میں ایسے ایسے لیڈرز بھی موجود ہیں جو عملاً صحافت نہیں کرتے۔۔لیکن کون صحافی ہے؟ کون نہیں ہے؟ سرٹیفکیٹ یہ بانٹتے پھرتے ہیں۔

پاکستان میں آزادی صحافت کیلئے مباحثہ کی ہی نہیں عملی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ۔اگر حکومت اور صحافتی ادارے، صحافی، ملک میں آزادی صحافت پر واقعی یقین رکھتے ہیں تو ۔۔ اس کیلئے ریلیوں اور احتجاج سے زیادہ بیٹھ کر سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے۔۔آزادی صحافت کیلئے ایک ملک گیر کمیٹی بنائی جا سکتی ہے جس میں ، حکومت ،صحافیوں اور مالکان کی نمائندگی بھی ہو ۔۔ جس میں ایسا ضابط یاروڈ میپ بنا یا جائے جس پر سب متفق ہو جائیں تو اس پر قانون سازی کی جائے تاکہ کل کوئی فریق پیچھے نہ ہٹے۔۔ ۔صرف مالکان کو تنقید کا نشانہ بنانا بھی درست نہیں ہے۔۔ صرف آزادی صحافت کیلئے کوئی ادارہ نہیں بناتا ۔۔ ہمیں یہ صورت بھی پیش نظر رکھنی ہے۔۔حکومت کی طرف سے بھی بااختیار لوگ آگے آ کر یہ طے کریں کہ صرف ان کے حق میں لکھنے یا بولنے کو آزادی صحافت نہیں کہا جائے گا بلکہ سچ ہضم کرنے کی عادت ڈالی جائے گی۔

جہاں ضابطے طے ہورہے ہوں وہاں جھوٹ اور پراپیگنڈا کے خلاف بے شک سخت اقدامات کی لائن بھی واضح کرلیں۔۔ تاکہ صحافت کے نام پر بلیک میلنگ کا راستہ بھی روکا جائے۔۔ مقصد کسی موجود ہ مالک یا صحافی کی طرف اشارہ نہیں ہے بلکہ آئندہ کیلئے آزادی صحافت کی راہوں کا تعین کرناہے۔۔صحافتی اداروں کو اشتہارات کی تقسیم ملازمین کی تنخواہوں سے مشروط کرنا بعض مالکان کو ہتک آمیزلگتاہے لیکن انھیں یہ بھی سوچنا چائیے کہ ان کے اپنے رویہ کے باعث ان کے ادارے بھی تو ساکھ کھو رہے ہیں۔۔اگر حکومت ، مالکان اور صحافی مل کر کسی حکمت عملی پر اتفاق رائے کریں گے تو یقینا اس میں سب کے مفادات کا خیال بھی رکھا جائے گا۔۔طے شدہ رولز کی خلاف ورزی سننے کیلئے ایک ایسی عدالت ہوجس کا فیصلہ حتمی ہو۔۔ قانون میں کوئی ابہام نہ رہے تاکہ کہ جج صاحب بھی غلط ہوں تو نظر آئیں۔

پاکستان میں صحافت کی موجودہ حالت دیکھ کر یقینا ہر زی شعور صحافی اور صحافتی اداروں سے وابستہ افراد کا دل خون کے آنسو روتا ہوگا۔۔۔خاص کر موجودہ دور حکومت میں صحافیوں پر ایک تاریخی انحطاط آیا ہے۔۔ صحافتی ادارے بھی خسارے میں گئے ہیں۔۔ فواد چوہدری صاحب جب وزیر اطلاعات تھے تب پشین گوئی کرتے تھے کہ آئندہ کی صحافت بہت مختلف ہو جائے گی۔۔ اب یہ تو نہیں پتہ کہ انھوں نے یہ روڈ میپ بنایا ہے یا حکومت خود ایسا چاہتی ہے لیکن صورتحال اتنی دگر گوں ہے کہ سیکڑوں صحافی قتل ہو چکے۔۔ ہزاروں بے روزگار ہیں۔۔اداروں میں کئی کئی ماہ کی تنخواہیں نہیں ملیں۔۔ میرے پاس تنخواہیں نہ دینے والے اور تاخیر کرنے والے اداروں کی فہرست موجود ہے لیکن مقصد محض اداروں کو لتاڑنا نہیں بلکہ قبلہ درست کرنے کی سعی کرناہے۔
جناب وزیراعظم !
آزادی صحافت کی راہ ہموارکرنے کیلئے کسی لشکر کی ضرورت نہیں ہے۔۔ نہ آپ کو اس کیلئے آئی ایم ایف یا بینکوں سے قرض لیناہے۔۔ آپ کو کوئی اضافی گرانٹ بھی نہیں دینی ۔۔بس نیت درست کرنے کی ضرورت ہے۔۔ جس طرح آپ چاہتے ہیں کہ باقی ادارے کسی سسٹم کے تحت چلیں اسی طرح میڈیا کیلئے بھی کوئی سسٹم بنائیں اور سب اس کو فالو کریں۔۔ نہ حکومت کو گلہ رہے۔۔ نہ مالک حق تلفی کی شکایت کرے اور نہ کسی میڈیا ورکرکو جاب سکیورٹی کا مسلہ درپیش ہو۔۔ ہمیں یقین ہے جناب وزیراعظم عمران خان آپ چائیں تو یہ مسلہ حل ہو سکتاہے۔۔ نئے وفاقی وزیر شبلی فراز بھلے آدمی ہیں اگر ان کو با اختیار بنا دیں تو ایک ٹائم فریم میں یہ تاریخ رقم کرسکتے ہیں۔یہ آپ ہی کی حکومت کر سکتی ہے۔ اب یہ آپ کو فیصلہ کرنا ہے کہ آپ نے صحافت ختم کرنی ہے یا اسے درست پٹری پر ڈالنا ہے۔

Comments are closed.