خصوصی تعلیم کا نصاب جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں، شہیر احمد

ثاقب لقمان قریشی

نام: شہیر احمد
تعلیم: ایم اے سپیشل ایجوکیشن
رہائش: مورگاہ راولپنڈی (آبائی علاقہ لاہور)
ملازمت: سپیشل ایجوکیٹر (گریڈ سولہ)

خاندانی پس منظر:

آباؤ اجداد قیام پاکستان کے وقت بھارت سے ہجرت کرکے آئے۔ والد صاحب شعبہ تعلیم سے وابستہ رہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے پروڈیوسر کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں۔ خاندان دو بھائیوں اور ایک بہن پر مشتمل ہے۔ بھائی شادی شدہ ہیں ٹیکسٹائل مل میں انجیئر کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں بہن زیر تعلیم ہے۔
زمینی حقائق ڈاٹ کام کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا احوال.

سوال: نظر کی کمزوری کی وجہ کیا بنی؟

پیدائش کے بعد ننھے شہیر کو آکسیجن کی شدید ضرورت تھی جو کہ دیر سے ملی۔ جس کے اثرات وقت گزرنے کے ساتھ نظر اور جسمانی کمزوری کی شکل میں واضع ہونا شروع ہوئے۔
سب کچھ نارمل بچوں کی طرح چل رہا تھا اچانک ایک دن سڑھیوں سے گر پڑے۔ شہیر کا گرنا چند روز بعد کمزوری اور مرگی کی شکل میں نمودار ہونا شروع ہوا۔ جس کا علاج اسلام آباد کے مختلف ہسپتالوں سے ہوتا رہا۔ اپنے آپ کو نارمل محسوس کرتے ہیں۔ نظر کی خرابی کیلئے عینک استعمال کرتے ہیں۔

سوال: ابتدائی تعلیم کے حصول میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

ابتدائی تعلیم کا حصول خاصا مشکل رہا۔نرسری سے ساتویں جماعت تک تعلیم اسلام آباد کے الفارابی سکول سے حاصل کی۔
تعلیمی سفر کا آغاز سات سال کی عمر میں نارمل سکول سے ہوا۔ بڑی کوششوں کے باوجود نارمل بچوں کے ساتھ نہ چل سکے۔اس صورتحال نے والدین کو پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ بڑی سوچ بچار کے بعد سپیشل ایجوکیشن کو مناسب قرار دیا گیا۔ یہاں ایک نیا مسئلہ درپیش آیا کہ ننھے میاں کا خصوصی بچوں میں دل نہیں لگتا تھا، اکثر کلاس سے بھاگ جایا کرتے تھے۔
سپیشل ایجوکیشن کے اساتذہ کرام نے ابتدائی دنوں میں شہیر پر بہت محنت کی۔ بہت پیار کیا جاتا بھرپور حوصلہ افرزائی کی جاتی، ورزشیں کرائی جاتیں یہاں تک کہ کھیلنے کیلئے کھلونے بھی دیئے جاتے۔ اساتذہ کرام کی محنت آہستہ آہستہ رنگ لانے لگی۔ لکھائی بہتر بنانے کیلئے نقطوں والی کاپیوں اور خصوصی پرچے پر مشق کرائی جاتیں جس سے لکھائی بہترین ہوتی چلی گئی۔
2004 میں خاندان فیصل آباد منتقل ہوگیا۔ گھر کے نزدیک اچھا سکول نہ ملنے کی وجہ سے ایک ایسے سکول میں داخلہ کروا دیا گیا جو گھر سے بہت دور تھا۔ سکول آنے جانے میں شدید مشکالات کا سامنا کرنا پڑتا۔ جس کی وجہ سے تعلیمی عمل بھی متاثر ہوا۔ساری مشکلات نے مل کر ایک بار ناکامی کا منہ بھی دکھایا۔
2007 میں خاندان لاہور شفٹ ہوگیا۔ جوہر ٹاؤن کے ایک مقامی سکول میں داخلہ لیا۔بلاآخر 2009 میں میٹرک کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

سوال: کالج کی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

اچھے نمبروں سے میٹرک پاس کرنے کے بعد کالج میں داخلہ لینے کا مرحلہ آیا۔ نارمل بچوں کے ساتھ تعلیمی سفر جاری رکھنا ممکن نہ تھا اسلیئے خصوصی تعلیمی ادارے کے کالج جو اس وقت گلبرگ میں ہوا کرتا تھا داخلہ کروا دیا گیا۔
کالج کے دور کو یاد گار قرار دیتے ہیں۔ شہیر نے جس سکول سے تعلیم حاصل کی اس میں صرف افراد باہم معذوری ہوا کرتے تھے۔ لیکن خصوصی افراد کے اس کالج میں نابینا افراد بھی زیر تعلیم تھے۔ اسطرح کالج کی زندگی نے افراد باہم معذوری کے ساتھ ساتھ نابنیا افراد کے مسائل کو جاننے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔
اساتذہ کی بہترین رہنمائی کی وجہ سے کالج کی پڑھائی کبھی بوجھ نہیں لگی۔محنت اور لگن کا یہ دور کامیابی سے یونہی چلتا رہا یہاں تک کہ 2009 سے 2013 تک کلاس کا ریکارڈ 100% رہا جسے کالج کی سترہ سالہ تاریخ میں ایک ریکارڈ تصور کیا جاتا ہے۔
رائٹنگ سپیڈ بہت کم ہونے کی وجہ سے رائٹر کی ضرورت پیش آیا کرتی۔ شہیر کہتےہیں کہ اگر یہ اپنے پرچے خود دیا کرتے تو شائد کبھی پاس نہ ہوتے۔ اپنی سوچ کو کسی اور کے قلم سے الفاظ کا روپ دینا ایک مشکل کام ہے۔ بیشتر نابینا افراد کے نمبرز میں کمی کی وجہ اچھے رائٹر کا نہ ملنا ہوتا ہے۔ خدا نے کزن کی صورت میں گھر ہی سے بہترین رائٹر فراہم کردیا۔ اس کے سکول سے اجازت نامہ لیتے، بورڈ میں جمع کرواتے اور پرچے دینے چلے جاتے۔ ایف اے اور بی اے اسی کالج سے کرنے کے بعد 2016 میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور سپیشل ایجوکیشن میں ایم اے اوپن یونیورسٹی کے فاصلاتی تعلیمی نظام سے کیا۔

سوال: سپیشل ایجوکیشن میں جاب کیسے ملی؟

ملازمت کیلئے ذیادہ جدوجہد نہیں کرنا پڑی۔ اپنی قابلیت اور خصوصی افراد کے کوٹے کی بنا پر 2017 میں نوکری کے حصول میں کامیاب ہوئے۔ سولویں گریڈ میں ہیں۔ خصوصی بچوں کو جرنل مضامیں پڑھاتے ہیں۔

سوال: سپیشل ایجوکیشن سے تعلیم حاصل کرنے والے بچے عام ماحول سے مطابقت میں پیچھے رہ جاتے ہیں؟ کیا کرنا ہوگا؟

سپشل ایجوکیشن فطری نظام تعلیم نہیں، اس نظام کے تحت بچوں کو مصنوعی ماحول میں رکھ کر تعلیم دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے بچے کو عام ماحول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خصوصی تعلیمی نظام کو جس حد تک ممکن ہوسکے انضامی یا مشترکہ تعلیم کے فروغ کیلئے اقدامات کرنے چاہیں۔

سوال: افراد باہم معذوری کیلئے کن فوری اقدامات کی ضرورت ہے؟

افراد باہم معذری کے حوالے سے خاندان کی کاؤنسلنگ بہت ضروری ہے۔ معاشرے میں افراد باہم معذوری کی تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
ویل چیئر افراد باہم معذوری کی ٹانگیں ہیں حکومت جسمانی معذور افراد میں مفت الیکٹرک اور مینول ویل چیئرز تقسیم کرے۔ خرابی کی صورت میں مرمت اور تبدیلی کا بھی اہتمام کرے۔جن خصوصی افراد کو مصنوعی اعضاء کی ضرورت ہے ان میں مصنوعی اعضاء مفت فراہم کیئے جائیں۔ریمپس کو سرکاری، غیر سرکاری اور نجی عمارتوں کا بنیادی جزو قرار دیا جائے۔ پارک، شاپنگ مال اور ہوٹلز میں ویل چیئر کی رسائی کا خاص خیال رکھا جائے۔
معذوری کی ایسی بہت سی اقسام ہیں جن سے بچاؤ ممکن ہے جیسا کے پولیو۔ پولیو کے قطروں کے حوالے سے مزید آگہی عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا کے چند بدقسمت ممالک کے علاوہ پوری دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ وطن عزیز کا شمار انہی چند ممالک میں آتا ہے۔ جہاں اب تک پولیو کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔ پولیو کے قطروے نہ پلوانے والے والدین کیلئے جرمانے اور سزائیں مختص کرنے چائیں۔ تاکہ پیار اور سختی کے حربوں سے اس مرض پر مکمل قابو پایا جاسکے اور آنے والی نسلوں کو معذوری سے بچایا جاسکے۔

سوال: بصارت سے محروم افراد کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟

بصارت سے محروم افراد میں امبراوزر بریل کتب لکھنے والی مشینیں مفت تقسیم کی جائیں۔ اچھے رائٹرز نہ ملنے کی وجہ سے نابینا افراد امتحانات میں اچھی کارگردگی نہیں دکھا پاتے۔ کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی میں نابینا افراد سے کمپیوٹرائزڈ امتحانات لینے کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔اس تجربے نے نابینا افراد کیلئے امتحانات جیسے مشکل مرحلے کو آسان بنا دیا ہے۔ حکومت اس نظام کو فوری طور پر پورے ملک میں لاگو کرے۔

سوال: سماعت سے محروم افراد کے لیئے کیا کیا جانا چاہیئے؟

سماعت سے محروم افراد کا سب سے بڑا مسئلہ ایک اشارتی زبان کا نہ ہونا ہے۔ حکومت تمام صوبوں کے اشارتی زبان کے ایکسپرٹس اور خصوصی تعلیمی اداروں کے ساتھ مل کر ایک اشارتی زبان ترتیب دے۔ تاکہ سماعت سے محروم افراد کو پورے ملک میں تعلیم اور نوکری کے حصول میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
سماعت سے محروم بچوں میں کوکلیر امپلانٹ مفت لگا کر انکی زندگی میں آسانیاں پیدا کی جائیں۔

سوال: کیا سلو لرننگ کوئی بیماری ہے؟ سلولرنرز کی بحالی کیسے ممکن ہے؟

سلولرننگ کو دنیا میں بیماری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اگر اسے معذوری سمجھ لیا جائے تو ہر شخص کسی نہ کسی مضمون میں کمزور ضرور ہوتا ہے۔ اسطرح اسکا دائرہ بہت وسیع ہوسکتا ہے جو پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ سلو لرنرز کو سپیشل ایجوکیشن کے بجائے عام سکولوں سے تعلیم دلوائی جائے۔

سوال: لاک ڈاؤن نے خصوصی بچوں کی تعلیم کو کتنا متاثر کیا؟

خصوصی تعلیمی ادارے خصوصی بچوں کو تعلیم ہنر، ورزشوں کے ساتھ ساتھ تفریح کا سامان بھی مہیا کرتے ہیں اسلیئے لاک ڈاؤن کا سب سے ذیادہ نقصان خصوصی بچوں کو پہنچا۔
تعلیمی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔ بچوں کی کارکردگی شدید متاثر ہوئی۔ جو ہنر حاصل کر کے خود مختار زندگی گزارنا چاہتے تھے انکے اعتماد کو شدید نقصان پہنچا۔ اسی طرح مناسب ورزشیں نہ ملنے کی وجہ سے بچوں کی صحت پر بھی برا اثر پڑا ہے۔

سوال: سپیشل ایجوکیشن میں بہتری لانے کیلئے کیا کرنا ہوگا؟

سپیشل ایجوکیشن کا نصاب اور کورسز جدید تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ نصاب اور کورسز کو صوبوں، شہروں اور صنعتوں کی ضروریات کے مطابق تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ صنعتوں اور سپیشل ایجوکیشن کی انٹیگریشن انتہائی ضروری ہے۔ تاکہ خصوصی نظام تعلیم سے فارغ ہونے والے طلبہ بے روزگار نہ رہیں۔
خصوصی افراد، خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں ذیادہ حساس پائے گئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ خصوصی نظام تعلیم میں نارمل افراد کو کوٹے پر رکھا جاتا۔ لیکن یہ نظام اس کے بر عکس چل رہا ہے یہاں خصوصی افراد کو ایک مخصوص کوٹے کے تحت نوکری دی جاتی ہے۔ خصوصی تعلیمی نظام میں خصوصی افراد کو ذیادہ سے ذیادہ نوکریاں دے کر بہتر نتائج حاصل کیئے جاسکتے ہیں۔

سوال: خصوصی افراد کیلئے متوازن معاشرہ کس طرح تشکیل دیا جاسکتا ہے؟

حکومت، میڈیا اور سول سوسائٹی کو مل کر تعلیم، صحت اور آگہی پر کام کرنا ہوگا۔ خصوصی افراد کے حقوق اور معلومات کو نصاب کا حصہ بنانا ہوگا۔ اس عمل سے یہ فائدہ ہوگا کہ نئی نسل کو ان مسائل سے متعلق مزید تربیت دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
ضیاء صاحب کے دور میں 1983 کے سال کو خصوصی افراد کے سال کے طور پر منایا گیا۔ جس کی وجہ سے خصوصی افراد کے مسائل کو اجاگر کرنے میں بہت مدد ملی۔ اگر ایک پورا سال یا سال میں کسی ایک مہینے کو خصوصی افراد کیلئے مختص کر دیا جائے تو مثبت نتائج حاصل کیئے جاسکتے ہیں۔

سوال: فارغ وقت کیسے گزارنا پسند کرتے ہیں؟

حالات حاضرہ میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں فارغ وقت میں خبریں، ٹاک شوز اور کالمز پڑھنا پسند ہے۔ اسکے علاوہ سوشل میڈیا اور کرکٹ کے میچز دیکھنا بھی فارغ اوقات کے مشاغل میں شامل ہیں۔

سوال: کھانے میں کیا پسند کرتے ہیں؟

دیسی کھانے شوق سے کھاتے ہیں۔بریانی، پلاؤ، قورمہ، نہاری اور مچھلی پسندیدہ ترین ڈشز ہیں۔

سوال: مستقبل میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟

اپنے سٹوڈنس کی اس طرح تربیت کرتے ہیں کہ انھیں نارمل معاشرے میں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ معاشرے اور خصوصی افراد کے درمیان فاصلوں کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ خصوصی افراد کو نارمل زندگی کی طرف لانا شہیر کی زندگی کا مقصد ہے۔ مستقبل میں اسی مشن کو آگے بڑھانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

سوال: خصوصی افراد کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

تعلیم خصوصی افراد کیلئے کسی ہتھیار سے کم نہیں۔ خصوصی افراد تعلیم کے حصول پر بھر پور توجہ دیں۔ اپنے آپ کو نارمل معاشرے کے ساتھ ڈھالنے کی کوشش کریں۔ ایک دوسرے کا سہارا بننے کی کوشش کریں اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں تو منزل دور نہیں ہے۔

Comments are closed.