حلقہء فکروفن کا مولانا ظفر علی خان کو خراج عقید

تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری
سعودی عرب میں اردو ادب کے فروغ کے لئے کئی تنظیمیں میدان عمل میں ہیں اور مختلف قسم کی تقاریب منعقد ہوتی رہتی ہیں ۔ کہیں مشاعرہ کا اہتمام ہو تا ہے کہیں کسی قومی ادیب / شاعر کا دن مناکر اسے خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے اور کبھی پاکستان سے تشریف لانے والے کسی ادیب شاعر کے اعزاز میں پروگرام منعقد ہو رہا ہوتاہے ۔ ان تنظیموں میں نہایت سرگرم حلقہء فکروفن ہے جو اردو ادب کی ترقی و ترویج کے لئے ایسے مواقعوں کی تاک میں ہوتا ہے ۔
کذشتہ روز حلقہء فکروفن نے معروف شاعر ، ادیب اور بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کی باسٹھویں برسی کے موقع پر ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کےلئے پاک ہاؤس میں تقریب منعقد کی –
مہمان خصوصی معروف صحافی اور کنگ سعود یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال اور مہمان اعزاز پاکستان انٹر نیشنل سکو ل کے نئے پرنسپل ائر کمو ڈور انعام الحق تھے – صدارت حلقہء فکروفن کے صدر ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے کی جبکہ نظامت کے فرائض حلقہء فکروفن کے نائب صدر محمد صابر قشنگ نے ادا کئے ۔ اور حاضرین میں شاعر ، صحافی اور شعر و ادب کے شائقین اور معززین شہر تھے –
پروگرام کا آغاز عمیر عبدالرؤف رانا نے تلاوت قرآن پاک سے کیا – معروف نعت گو محمد اصغر چشتی نے اپنی خوبصورت آواز میں مولانا ظفر علی خان کے حمدیہ کلام پیش کیا ۔ جبکہ ڈاکٹر سعید احمد وینس نے مولانا کی نعتیہ کلام سے اپنی گونج دار آواز میں نعت رسول مقبول پیش کرکے سامعین کو مدہوش کر دیا – پروگرام کی غرض و غائیت اور سپاسنامہ حلقہء فکروفن کے مشیر اعلی ڈکٹر محمود احمد باجوہ نے پیش کرتے ہوئے کہا مولانا ظفر علی خان غیر معمولی قابلیت کے حامل خطیب اور استثنائی معیار کے انشائیہ پرداز تھے ۔صحافت کی شاندار قابلیت کے ساتھ ساتھ مولانا ظفر علی خان شاعری کے بے مثال تحفہ سے بھی مالا مال تھے۔ ان کی نظمیں مذہبی اور سیاسی نکتہ نظر سے بہترین کاوشیں کہلاتی ہیں -معزز مہمانوں کو پروگرام میں خوش آمدید کہا ۔ شاعر حلقہء کامران ملک نے اپنا کلام پیش کیا –
ہمایوں اختر نے مولانا کی شاعری پر ایک نظر کے عنوان سے ان کی شاعری کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا اور اپنے منظوم کلام سے خراج عقیدت پیش کیا جبکہ معروف شاعر حلقہ فکروفن محسن رضا نے اپنے کلام سے سامعین کو مستفید کیا –

پاکستان انٹرنیشنل سکول کے پرنسپل گوہر رفیق نے مولانا ظفر علی خان کی صحافت کے طور پر انکی خدمات اور پاک و ہند کے مسلمانوں کو بیدار کرنے میں انکے رول پر روشنی دالی اور اس پرانکو زبردست خراج عقیدت پیش کیا – جبکہ ابھرتے ہوئے شاعر اور حلقہ فکروفن کے جوائنٹ سیکریٹری منصور محبوب چوہدری نے منظوم کلام سے بابائے صحافت کی زبردست تعریف کی اور اپنا تازہ کلام بھی سنایا جسے سامعین نے بے حد پسند کیا ۔
فرمانروا صحافت کا ہے ظفر علی خان
مردِ جری سیاست کا ہے ظفر علی خان

امت کی رہبری ، تیری کرتی ہے خطابت
اعزاز استقامت کا ہے ظفر علی خان

حلقہ فکروفن کے ناظم الامور ڈاکٹر طارق عزیز نے اپنا مقالہ اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا جس میں انہوں نے مولانا ظفر علی خان کی بطور صحافی ، سیاسی لیڈر اور بہترین شاعر ، انکی زندگی کے مختلف گوشوں کو افشاں کیا ۔ ڈاکٹر طارق نے کہا کہ وہ نامور خطیب ، بے باک صحافی اور نڈر سیاست دان تھے انہوں نے زمیندار اخبار کے ذریعے اس وقت برطانوی سامراج کو للکارا جب اس کا اقتدار نصف النہار پر تھا ۔ ریاض کے معروف مزاحیہ شاعر شوکت جمال نے
مولانا ظفر علی خان کا کلام پیش کیا اور اپنی شاعری سے نظم پیش کر کے بہت داد وصول کی ۔

نظامت کے فرائض ادا کرنے کے ساتھ محمد صابر قشنگ نے جب اپنا کلام پیش کیا تو سامعین خوشی سے جھوم اٹھے اور زبر دست داد سے نوازہ ۔ اور بے پناہ تالیوں کی آواز سے حال گونج اٹھا ۔
تری اُس کے در سے بنی رہے مجھے اِس کے در سے نصیب ہو
نہ ترا خدا تجھے کم لگے نہ مرا خدا مجھے کم لگے
مرے قافلے میں قیام کر مرے کارواں کا امیر بن
یہ علم اٹھا کے بتا ہمیں اسے یوں اٹھا کہ علم لگے
محمد صابر

مہمان اعزاز ائر کموڈور انعام الحق نے مولانا ظر علی خان جیسے قومی لیڈر کا دن منانے پر حلقہء فکروفن کو مبارک باد پیش کی اور کہا کہ پردیس میں اس طرح کی محفلیں جاری رہنا چاہیں ۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر جاوید قبال نے کہا بابائے صحافت کا شمار قائداعظم کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی جان و مال اور تن من دھن ملت اسلامیہ کے لئے وقف کیا ہوا تھا ۔ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے ۔
آخر میں تقریب کے صدر ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ حلقہ فکروفن نے ہمیشہ تشنگان شعروادب کی سماعتوں کو آسودگی بخشنے کےلئے نامور ادباء اور شعراء کی محفلیں سجائی ہیں اور آج کی تقریب بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے – مولانا ظفر علی خان ہنگامہ پرور سیاسی رہنما ، بے باک صحافی ، شعلہ بیان مقرر ، بے مثل نقاد ، اعلی درجے کے مترجم اور قادرالکلام شاعر تھے ۔ مولانا نے پر آشوب دور میں قلم کی حرمت کا پرچم بلند کر کے سچائی کا ساتھ دیا – انگریزی سامراجیت کے خلاف وہ امن کا پرچم لے کر آگے بڑھے ۔ انہوں نے صحافتی اقدارکے فروغ کے لئے کسی بھی سودے بازی کو قبول نہ کیا – عصر حاضر میں سچ لکھنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے – علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ترکی میں مصطفی کمال کی تلوار اور ہندوستان میں ظفر علی خان کے قلم نے مسلمانوں کو بیدار کیا ۔ موجودہ دور کے صحافیوں کے لئے انکی زندگی مشعل راہ ہے ۔ ہماری موجودہ نوجوان نسل کو ان کے بے شمار کا ر ہائے نمایاں جو تاریخ کے اوراق میں دفن ہیں سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان کے نقش قدم پر چل سکیں ۔
رانا عبدالرؤف کی دعا پر پروگرام اختتام پذیر ہویا ۔

 

Comments are closed.