تنویر اعوان بمقابلہ کالی بھیڑیں

شمشاد مانگٹ

قانون پسندوں کیلئے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ پاکستان میں جس نے بھی قانون کے مطابق زندگی گزارنے کی راہ تلاش کی اسے گمنام راہوں میں مار دیاگیا ہے۔قانون کی عملداری کا سب سے زیادہ زعم صحافی برادری کو ہوتا ہے اور ریکارڈ گواہ ہے کہ اسی قانون کی موجودگی میں سینکڑوں صحافی تاریک راہوں میں مارے گئے اور اس سے زیادہ تعداد میں اپنے جسم کی ہڈیاں تڑوا بیٹھے لیکن انکی حفاظت کیلئے بنائے ہوئے سارے قوانین لمبی تان کے سوتے رہے۔

وفاقی دارالحکومت کے سینئر صحافی تنویر اعوان کے ساتھ بھی قانون سے محبت کے جرم میں اٹک پولیس نے ایسا ہی سلوک کیا ہے۔تنویر اعوان پاکستان کی سب سے بڑی پرائیویٹ نیوز ایجنسی آن لائن کے ساتھ بطور ایڈیٹر انویسٹی گیشن کام کر رہے ہیں اور تحقیقات کرنے والے صحافیوں سے ہمیشہ قانون کی وردی میں چھپے ہوئے بھیڑئیے سخت نفرت کرتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ تھانے کے معمولی سے معمولی معاملے میں بھی اگر کسی نے ظلم کا کھرا تلاش کیا تو وہ باوردی اہلکاروں کے کمرے پرجاکر رک جائے گا۔

اس لئے صحافت میں ایسا کام کرنے والوں کیلئے ہمیشہ خطرے کی گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں۔تنویر اعوان گزشتہ روز ایک مقدمہ کی پیری کیلئے اٹک میں موجود تھے اور انہیں یہ بھی یقین تھا کہ قانون ان کا تحفظ کرے گا لیکن شاید اب وہ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ہر تھانے کا اہلکار ہر قانون کی تشریح اپنی مرضی سے کرتا ہے۔

اگر سیاسی مداخلت ہو تو قانون کا راستہ اور تشریح کسی اور پگڈنڈی پر جانکلتی ہے اور اگر”چمک“ کا بروقت استعمال کرلیا جائے تو پھر قانون یہ نہیں دیکھتا کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون ہے؟ بلکہ پاکستان کے ہر تھانے میں یہ اصول اور ضابطہ غیر اعلانیہ نافذ العمل ہے کہ پیسے جیب بھر کر لیکر آئیے اور مرضی کا انصاف پائیے۔ضابطہ فوجداری کے تمام قوانین پر پولیس کا یہ اصول اور ”ضابطہ جیب بھاری“ زیادہ وزنی ہو چکا ہے۔

اٹک شہر کی کچہری میں تنویر اعوان مقدمے کی پیروی کے سلسلے میں موجود تھے اور مخالفین کے پاس سب سے موثر اور بہترین ہتھکنڈہ یہی ہوتا ہے کہ شرفاءکو پہلے بیچ چوراہے تشدد کا نشانہ بنایا جائے اور پھر تھانے میں اپنے اثرورسوخ کی دھاک بٹھا کر مدعیان کو بے بس اور لاچار کرکے عدالتوں میں مرضی کے بیان دلوا کر مرضی کا انصاف حاصل کیا جائے۔

یہی کھیل تنویر اعوان کے ساتھ کھیلا گیا ہے۔مگر چونکہ تنویر اعوان ایک سچا اور کھرا عوان ہے اور اپنے مقصد کے ساتھ ساتھ دوسروں کے حق کیلئے بھی لڑنا اسکی گھٹی میں شامل ہے۔اس لئے یہ لڑائی اب اٹک نے مقامی لینڈ مافیا کے انجام تک لڑی جائے گی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ظالم کو آخر پسپا ہونا ہی پڑتا ہے۔

ڈی پی او اٹک سید خالد ہمدانی اچھی شہرت کے حامل ہیں لیکن تھانے میں موجود کالی بھیڑیں ان کی نیک نامی کے سورج کو گرہن لگائے ہوئے ہیں۔تنویر اعوان تو چونکہ ایک جانے مانے صحافی ہیں اس لئے انکی آواز اخباروں اور ایوان کی گیلریوں تک پہنچ ہی جائے گی مگر تصور کئے جائے کہ دارالامن کے نام سے بنائے گئے تھانے عام اور بے بس شہریوں پر روزانہ قانون کے نام پر کتنا ظلم کرتے ہیں؟

ڈی پی او اٹک کو اس معاملے کی غیر جانبدارانہ انکوائری کروانی چاہئے کہ آخر پولیس کو کس سیاسی دباونے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا کہ اس نے اچھی شہرت کے حامل ایک معروف صحافی کو قبضہ گروپ کے اشارہ ابرو پر حوالات میں بند کردیا۔

اٹک پولیس کا ابتدائی موقف یہ تھا کہ تنویر اعوان کو حوالات میں اس لئے بند کیا گیا کہ نقصِ امن کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔حالانکہ سچ یہ ہے کہ امن کو نقصان پہلے قبضہ گروپ نے پہنچایا اور پھر پولیس اس کا حصہ بن گئی اور امن پسند صحافی اور شہری تنویر اعوان کو نقصِ امن کی خودساختہ تشریح کی آڑ میں حوالات میں بند کردیاگیا۔

حکومت صحافیوں کے تحفظ کا قانون بنانے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ پولیس شہریوں کے تحفظ کیلئے بنائے گئے قوانین روزانہ کی بنیاد پر پامال کرتی ہے اور اس پامالی کو قانون کی چھتری بھی فراہم کردیتی ہے۔تنویر اعوان کا معاملہ یقینی طور پر صحافیوں کی قیادت اعلیٰ سطح پر اٹھائے گی لیکن پولیس افسران کو از خود اپنی صفوں میں کالی بھیڑوں کی قربانی کر دینی چاہئے۔وگرنہ قانون شکن مزید معتبر ہوتے جائیں گے اور قانون کا احترام کرنے والے مزید رسوائیوں کی کھائی میں جاگریں گے۔

Comments are closed.