اوورسیز پاکستانیوں کو انعام کے بجائے سزا کیوں؟

افتخار احمد (جرمنی)

آج وزیراعظم عمران خان نے فخر سے بتاتے ہوئے اوورسیز پاکستانیوں کا شکریہ ادا کیا کہ گزشتہ ماہ بیرونی ممالک سے ترسیل زر دو ارب ستائیس کروڑ رہی جبکہ گزشتہ آٹھ ماہ سے گراف دو ارب ڈالر سے زائد رہا ۔ سالانہ کے حساب سے یہ رقم تقریباً ستائیس ارب ڈالر بنتی ہے دیکھا جائے تو اس وقت اوور سیز پاکستانی حکومت پاکستان کی وہ انڈسٹری ہے جس میں حکومت نے تو ایک دھیلے کی بھی سرمایہ کاری نہیں کی جبکہ ماہانہ اس کی جھولی میں سوا دو ارب ڈالر سے زیادہ آ رہے ہیں.

اصول تجارت کے مطابق جو آجر اپنے ورکرز کو سہولیات فراہم کرتے ہیں ورکرز مزید دل جمعی سے ان کی تجوریوں میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ورکرز کو پہلے سے دی گئی سہولتوں کو واپس لینے والے آجر نقصان اٹھاتے ہیں ۔ ہمسایہ ملک بھارت کی مثال لیں تو وہاں کے اوورسیز بھارتیوں کو بھی پاکستان اوریجن کارڈ جیسی سہولت میسر ہے.

فرق صرف اتنا ہے کہ بیرون ممالک دوسری شہریت رکھنے والوں کو یہ کارڈ زندگی میں صرف ایک بار ہی فیس دے کر بنوانا ہوتا ہے جو لگ بھگ دو سوا دو سو ڈالر کا ہے گم ہونے کی صورت میں تیرہ ڈالر ادا کر کے ڈپلیکیٹ حاصل کیا جا سکتا ہے ، ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے افراد کو فیس ادا کرنے کی ضرورت نہیں ، کسی بھارتی پاسپورٹ ہولڈر کو اپنی رفیقہ حیات یا خاوند کے لئے بھارتی ویزے کی فیس ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.

پارٹنر یعنی شریک حیات کا ویزہ مفت لگے گا یہ نظام یورپ میں بھی موجود ہے علاؤہ ازیں بھارت جانے پر انہیں بہت ساری ایسی سہولیات میسر ہوتی ہیں جو ایک بھارتی شہریت رکھنے والے کو میسر نہیں ہوتیں ۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے آج تک ہمارے حکمرانوں نے جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کہ ، ہمارے ہر آنے والے نئے حکمران نے اوورسیز پاکستانیوں کو اپنا زر خرید غلام سمجھ کر اپنی مرضی کے مطابق سلوک کیا.

گزشتہ دور حکومت میں وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اوریجن کارڈ کی قیمت دگنی سے بھی زیادہ بڑھا کر سوا دو سو ڈالر سے بھی زیادہ کر دی جبکہ سفارتخانوں سے اپنے اہلکار اٹھا کر اسے صرف آن لائن تک محدود کر دیا کمائی کرنے والوں نے چالیس سے پچاس یورو تک اس کی علیحدہ وصولی کی یوں چھ افراد کا کنبہ یکمشت سولہ سترہ سو یورو کے اخراجات کا متحمل نہ ہو سکا.

محض سات سال کے جاری ہونے والے اوریجن کارڈ کو یہ کنبہ حاصل کرنے سے دستبردار ہوگیا ، بڑی فیملی اوسطاً چار سال سے پہلے پاکستان نہیں جاسکتی جبکہ مہنگا اورریجن کارڈ ان کے صرف ایک بار ہی استعمال میں آ رہا تھا ، چوہدری نثار نے جو زیادتی اوور سیز پاکستانیوں پر کی انتخابات میں انہوں نے اس کا بدلہ انتخابات میں چکایا.

وہ یوں چکایا کہ ہر اوور سیز پاکستانی جس کے زیر کفالت پاکستان میں کئی افراد ہوتے ہیں نے پوری کوشش کی کہ وہ انتخابات جیت نہ سکیں اس میں دیگر عوامل بھی شامل تھے مگر ان عوامل کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ لے دے کر سفارت خانوں اور قونصل خانوں سے مینوئل ویزہ دستیاب تھا جو کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ایک ہی روز میں حاصل کیا جا سکتا تھا.

بدقسمتی سے موجودہ غیر سنجیدہ وزیر داخلہ نے اسے بھی صرف آن لائن تک محدود کر کے اوور سیز پاکستانیوں کو وطن سے محبت کی سزا سنا دی، موصوف وہ شخص ہے جو اپنی سیاسی جماعت کا اکیلا رکن ہے اس کے پاس ماسوائے اپنی وزارت گنوانے کے اس کے دامن میں اور کچھ بھی نہیں ہے اس زیادتی کا خمیازہ وزیراعظم عمران خان اور اس کی جماعت نے بھگتنا ہے.

اوور سیز پاکستانی گزشتہ کئی روز سے مینوئل ویزے پر عائد پابندی کو اٹھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جو ارباب اختیار کے کانوں تک یا تو پہنچ نہیں رہا یا جان بوجھ کر پہنچایا نہیں جا رہا ، آج وفاقی وزیر داخلہ نے ویزوں کے اجراء کے بارے میں جو فیصلے سنائے ہیں وہ حکومت کو مبارک ہوں اوورسیز پاکستانیوں کو آسان راستوں کے بجائے مشکل گزار راستوں پر ڈالا جا رہا ہے جو انہیں قبول نہیں۔

ارباب اختیار سے سوال ہے کہ کیا وہ اوور سیز پاکستانیوں کو وہ سہولتیں فراہم نہیں کر سکتی جو بھارتی اوورسیزوں کو حاصل ہیں؟
ہمیں ہر سات سال بعد دہشتگردوں کی طرح انگھوٹوں پر سیاہی لگانے سے کب نجات ملے گی؟
ہم کب تک محکوموں کی طرح حاکموں سے مطالبات پیش کرتے رہیں گے؟

ہماری بیرون ملک پیدا ہونے والی نئی نسل ہماری پریشانیوں کو دیکھ کر وطن عزیز سے متنفر ہو رہی ہے اس کا مداوا کون اور کب کرے گا؟
کیا حاکم وقت اوور سیز پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے گئے ماہانہ سوا دو ارب ڈالر پر ہی جھومتا رہے گا یا ان کی زندگی میں ہمسایہ ملک کی طرح آسانیاں بھی پیدا کرے گا؟

Comments are closed.