اشاروں کی زبان پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے، وسیم عباس

ثاقب لقمان قریشی

نام: محمد وسیم عباس
تعلیم: بی-اے
شعبہ: جونیئر ایڈمن آفیسر (پاکستان آئل فیلڈز لمیٹڈ)
رہائش: راولپنڈی (آبائی گاؤں: تلہ گنگ)

خاندانی پس منظر:

والد پاکستان آرمی سے منسلک رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد گاؤں میں کپڑے کا کام شروع کر دیا۔ والدہ محکمہ تعلیم سے وابستہ رہیں۔ والدین بچوں کی بہترین پرورش کر کے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔
خاندان دو بھائی اور تین بہنوں پر مشتمل ہے۔ تینوں بہنیں ماسٹرز ہیں۔ ایک بہن نے سوشیالوجی میں ایم ایس سی کی ہے گورنمنٹ کالج میں بطور لیکچرار فرائض سر انجام دے رہی ہیں دوسری بہن مطالعہ پاکستان میں ایم اے کے بعد سرکاری سکول میں پڑھا رہی ہیں جبکہ تیسری بہن نے سپیشل ایجوکیشن میں ایم اے کر رکھا ہے۔ چھوٹا بھائی اے-سی-سی-اے کا طالب علم ہے۔
زمینی حقائق ڈاٹ کام کے لئے کئے گئے انٹرویو کی تفصیلات

سوال: سماعت سے محرومی کی وجہ کیا تھی؟

سماست سے محرومی کا مسئلہ پیدائشی ہے۔ والدین کو جب محسوس ہوا کہ وسیم بول اور سن نہیں سکتے تو وہ پریشانی میں مبتلا ہوگئے ۔ علاج کیلئے بہت بھاگ دوڑ کی گئی۔والد صاحب نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر اسلام آباد اور لاہور کے تمام بڑے ڈاکٹروں سے رائے لی۔علاج معالجے سے خاص افاقہ نہ ہوا۔ آلہ سماعت ہی مسئلے کا واحد حل قرار دیا گیا۔

سوال: اپنے بچپن کو کیسا قرار دیتے ہیں؟
لوگوں سے بات چیت میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا؟ کون سے کھیل کھیلا کرتے تھے؟

وسیم اپنے بچپن کو بہترین قرار دیتے ہیں۔ والدین کی بے پناہ محبت کی وجہ سے گھر میں انھیں سپیشل پروٹوکول دیا جاتا تھا۔ بھاگنے اور دوڑنے والے کھیل بہت پسند کرتے تھے۔ وسیم کو عام خصوصی افراد کی طرح القابات، حقارت اور طنزومزاح کا سامنا نہیں کرنا پڑا وجہ یہ تھی کہ وسیم تھوڑی بہت سننے اور بات کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اسلیئے ابلاغ میں ذیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔

سکول کا انتخاب کیسے کیا؟ حصول تعلیم میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

گھر کے نردیک کوئی خصوصی تعلیمی ادارہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کا داخلہ مقامی سکول میں کروا دیا گیا۔ بولنے اور سننے کی معمولی سی صلاحیتوں کے ساتھ عام سکول میں پڑھنا ممکن نہ تھا۔
وسیم کی خالہ ایک دن ٹی وی کے چینل بدل رہی تھیں۔ اچانک ایک چینل پر انھیں ڈاکٹر احمد حسن کچھ کہتے نظر آئے۔ بھانجے سے بے پناہ محبت کی وجہ سے خالہ نے پورا انٹرویو سننا مناسب سمجھا۔ انٹرویو کے فوری بعد خالہ نے ڈاکٹر احمد حسن کو خط لکھا اور ان کے انسٹیٹیوٹ کے بارے میں معلومات لینے کی کوشش کی۔
خالہ کا مشورہ سب کو پسند آیا لیکن مسئلہ ہوسٹل میں رہنے کا تھا۔ والدین نے وسیم کو راولپنڈی کی حسن اکیڈمی کا دورہ کرانے کے بعد ان سے رائے لینے کی کوشش کی۔ ننھا وسیم سکول میں اپنے جیسے بچوں سے مل کر بہت خوش ہوا اور اس نے فوری حامی بھرلی۔ اس طرح بہادر بچے نے ابتدائی تعلیم حسن اکیڈمی سے حاصل کی۔
پانچویں جماعت کے بعد وسیم کا داخلہ راولپنڈی کی سرسید اکیڈمی فار سپیشل ایجوکیشن میں کروا دیا گیا ۔ شروع کے دنوں میں سمجھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن سکول انتظامیہ اور والدین کی سپورٹ سے اس مسئلے پر بھی قابو پالیا گیا۔

سوال: کالج کی تعلیم کہاں سے حاصل کی اور فائن آرٹس کے مضمموں کا انتخاب کیوں کیا؟

کالج کی تعلیم بھی راولپنڈی کی سرسید اکیڈمی سے ہی حاصل کی۔ تعلیمی سفر میں بہترین طالب علم کے طور پر جانے جاتے تھے۔ بی اے کے امتحانات میں پورے کالج میں تیسری پوزیشن حاصل کر کے والدین کا سر فخر سے بلند کر دیا۔
بی اے کی ڈگری انگلش، فائن آرٹس اور کمپیوٹر میں حاصل کی۔ پینٹنگ اور ڈرائنگ کے ساتھ بچپن ہی سے گہرا لگاؤ تھا ۔ بی اے کے بعد بھی تعلیمی سفر کو منقطع نہ ہونے دیا۔ نیشنل ٹریننگ سینٹر فار سپیشل پرسنز اسلام آباد سے کمپیوٹر سائنسز میں ڈیڑھ سال کا ڈپلومہ کیا۔

سوال: پہلی ملازمت کہاں ملی؟ آئل کمپنی میں کب سے کام کر رہے ہیں؟

پہلی نوکری بطور استاد حسن اکیڈمی میں اختیار کی۔ وسیم کی قابلیت اور تعلیمی کیریئر کو دیکھتے ہوئے انھیں فوری طور پراستاد بھرتی کر لیا گیا۔ بطور استاد بچوں کو آرٹ، پینٹنگ، ڈرائنگ اور سائن لینگویچ کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ پڑھانے کا یہ سلسلہ دو سال ہی چل سکا۔ پھر ایک لمبا وقفہ آگیا۔
پانچ سال کی طویل جدوجہد کے بعد پاکستان آئل فیلڈز لیمیٹڈ میں نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پچھلے پانچ سال سے پاکستان آئل فیلڈز میں بطور جونیئر ایڈمن آفیسر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

سوال: سائن لینگوج یا اشاروں کی زبان کیا ہوتی ہے؟ برصغیر میں اس کی کیا تاریخ ہے؟ پاکستان میں اشاروں کی کون سی زبان بولی جاتی ہے؟

اشاروں کی زبان کی تاریخ انسان جتنی پرانی ہے۔ کیونکہ انسان نے ابتدائی ابلاغ کیلئے اشاروں کا سہارا لیا۔ اشاروں کی زبان اور بولنے زبان میں کوئی خاص فرق نہیں پایا جاتا۔ بولنے والی زبان میں جو باتین منہ سے کہی جاتی ہیں اشاروں کی زبان میں وہی باتیں ہاتھ کے اشاروں، چہرے کے تاثرات اور جسم کی مدد سے کی جاتی ہیں۔
امریکہ میں ٹی ایچ گلاؤڈٹ کو امریکی سائن لینگویچ کا بانی تصور کیا جاتا ہے، چارلس لپی ایف ایس ایل فرنچ سائن لینگویچ کے بانی ہیں جبکہ بریل وڈ کو برطانوی سائن لینگویچ بی ایس ایل کا فاؤنڈر تسلیم کیا جاتا ہے۔
برطانیہ کے ڈاکٹر ہیو برصغیر میں سماعت سے محروم افراد کے سکول کے قیام کی تجویز لائے۔ سکول کے قیام کیلئے اس وقت کے وائسرائے لارڈ رپن سے مذاکرات کیئے گئے۔ لارڈ رپن کو تجویز بہت پسند آئی۔ اسطرح 1885 میں ممبئی میں سماعت سے محروم افراد کے پہلے سکول کی بنیاد پڑی۔
تقسیم سے پہلے برصغیر میں جو سائن لینگویچ بولی جاتی تھی اسے برٹش انڈوپاک سائن لینگویچ کہا جاتا ہے۔ اشاروں کی یہ زبان بی ایس ایل (برٹش سائن لینگویچ سے ملتی جلتی ہے۔ پاکستان میں اشاروں کی جو زبان استعمال ہوتی ہے اسے پی ایس ایل کہا جاتا ہے۔ پی ایس ایل دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی زبانوں کی طرح ہمہ گیر تو نہیں لیکن اس پر تحقیق کا سلسلہ جاری۔
وطن عزیز میں اشاروں کی زبان کی آگہی پر سب سے ذیادہ کام سید افتخار احمد نے کیا۔ پی ٹی وی پر انکے پروگرام بولتے ہاتھ نے پاکستان میں سائن لینگویچ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ بولتے ہاتھ کی وجہ سے وطن کی اشاروں کی زبان کیلئے پی ایس ایل کا لفظ استعمال ہونا شروع ہوا۔

سوال: پاکستان میں سماعت سے محروم افراد کی تعداد کتنی ہے؟

وطن عزیز کی پانچ فیصد آبادی کسی نہ کسی قسم کے سماعتی عارضے میں مبتلا ہے۔ پاکستان کی موجودہ آبادی کے تناسب سے یہ تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے۔
سوال: سماعت سے محروم افراد کی تعلیم کے راستے میں کون کون سی رکاوٹیں حائل ہیں؟
غربت اور آگہی کا فقدان سماعت سے محروم افراد کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ مہنگے ترین علاج اور سماعتی آلات کی عدم دستیابی کی وجہ سے بیشتر افراد علاج کی سہولیات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ آگہی کے فقدان کی وجہ سے سماعت سے محروم افراد کو نکما اور ناکارہ تصور کیا جاتا ہے۔
ایک کروڑ سے زائد افراد کی کمیونٹی کیلئے خصوصی تعلیمی اداروں کی تعداد ناکافی ہے۔ خصوصی تعلیمی اداروں کے ناتجربہ کار اساتدہ، نانپروفیشنل سلیبس اور پڑھانے کے پرانے طریقہ کار کو تعلیم کے راستے کی بڑی رکاوٹ تصور کیا جاتا ہے۔
پرائیویٹ خصوصی تعلیمی اداروں کا معیار سرکاری سکولوں سے خاصا بہتر ہے لیکن یہ پرائیویٹ خصوصی تعلیمی ادارے بزنس کا روپ دھار چکے ہیں جنھیں کم ہی لوگ افورڈ کرسکتے ہیں۔

سوال: سماعت سے محروم افراد نوکری کے حصول سےکیوں محروم رہ جاتے ہیں؟

سماعت سے محروم افراد کی بڑی تعداد تعلیم کے بوسیدہ نظام کی وجہ سے حصول علم سے محروم رہ جاتی ہے۔ چند فیصد خوش نصیت جو اپنی محنت اور خاندان کی سپورٹ سے آگے بڑھ جاتے ہیں انھیں آگے بڑھنے کیلئے بہت محدود سی فیلڈز میسر آتی ہیں۔ جسکی وجہ سے سماعت سے محروم افراد ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
نوکری کے حصول میں ابلاغ بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سماعت سے محروم افراد کا سب اہم مسئلہ اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانا ہے۔ سائن لینگویچ سے ناواقفیت سماعت سے محروم افراد کے روزگار کے مواقعے مزید کم کر دیتا ہے۔

سوال: سماعت سے محروم افراد اور معاشرے میں فاصلے کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟ الیکڑانک میڈیا اس ضمن میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟

سائن لینگویج ابلاغ کا قدیم ترین ذریعہ ہے۔ اسے سکول کی سطح سے لازم قرار دینا چاہیے تاکہ ہر شخص بولنے والی زبان کے ساتھ ساتھ اشاروں کی زبان میں بھی بات کرسکے۔ اس عمل سے سماعت سے محروم افراد کیلئے تعلیم کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔ سماعت سے محروم افراد عام افراد کے ساتھ مل کر بہترین معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں خصوصی افراد کے حوالے سے بہت سے تہمات، خدشات اور تحفظات پائے جاتے ہیں۔ جنھیں دور کرنے کے لیئے آگہی کی بڑی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت، سول سوسائٹی اور خصوصی افراد ملکر ہی اس مہم کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔
سماعت سے محروم افراد کو اکیلے پی ٹی وی تک تو نمائندگی حاصل تھی۔ امید کی جارہی تھی کہ نئے چینلز نمائندگی میں اضافے کا باعث بنیں گے لیکن نتائج اس کے برعکس نکلے۔ کیبل چینلز معاشرے اور سماعت سے محروم افراد کے درمیان فاصلہ کم کرنے کے بجائے اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
میڈیا خبروں، ڈراموں، ٹاک شوز وغیرہ میں سائن لینگویچ انٹرپریٹر شامل کر کے معاشرے اور سماعت سے محروم افراد کے درمیان فاصلوں کو کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ دور میں سوشل میڈیا نے ابلاغ کے تمام ذرائع سے ذیادہ اہمیت حاصل کر لی ہے۔ حکومت، سول سائٹی اور سماعت سے محروم افراد سوشل میڈیا کیمپینز کے ذریعے سماعت سے محروم افراد کے حوالے سے آگہی عام کرسکتے ہیں۔

سوال: آپ کے مشاغل کیا ہیں؟ فارغ وقت کیسے گزارتے ہیں؟

پیٹنگ اور سکیچنگ کے شوقین ہیں فارغ وقت میں ڈرائنگ کرنا پسند کرتے ہیں۔ اکثر سکول اور کالج کےزمانے کی پینٹگنز بنا کر پرانی یادیں تازہ کرتے رہتے ہیں۔ فٹ رہنے کے شوقین ہیں فارغ اوقات میں فٹنس پر بھرپور توجہ دیتے ہیں۔

سوال: کھانے میں کیا پسند کرتے ہیں؟

کھانے کے شوقین ہونے کے ساتھ ساتھ بنانے میں بھی خوب مہارت رکھتے ہیں۔ چھٹی والے دن کھانا خود بناتے ہیں۔ بریانی اور پیزا پسندیدہ ڈشز ہیں۔

سوال: مستقبل میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟

مزید معاشی آسودگی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سائن لینگویچ پرمزید تحیق کرنا اور ایسا انکلوسو سکول بنانا چاہتے ہیں جہاں بولنے والے اور سماعت سے محروم بچے اکھٹے تعلیم حاصل کرسکیں۔

سوال: اپنی کیمونٹی کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟

ہم کچھ سوچ رہے ہوتے ہیں اور خدا نے ہمارے لیئے کچھ اور پلان کر رکھا ہوتا ہے۔ ہمیں خدا کی ذات پر مکمل اور پختہ یقین رکھنا چاہیئے۔ اس نے کوئی چیز بے کار پیدا نہیں کی۔ قدرت انسان سے ایک چیز لیتی ہے تو وہیں دوسری بے شمار نعمتوں سے نواز دیتی ہے جسے انسان سمجھ نہیں پاتا۔

Comments are closed.