استعفوں پر پی ڈی ایم تقسیم، پیپلزپارٹی آمادہ نہیں ہے

محبوب الرحمان تنولی

اسلام آباد: پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا تمام تر دعووں کے باوجود پارلیمنٹ سے استعفوں کے معاملے پر اتفاق رائے ابھی تک نہیں ہو سکاہے.

پیپلزپارٹی کی طرف سے بلاول بھٹو زرداری زرداری، مرتضیٰ وہاب اور دیگر لیڈرز بار بار یہ وضاحت دے رہے ہیں کہ استعفے دینے کے معاملے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیاہے.

دوسری طرف مسلم لیگ ن کے مریم نواز سےپارٹی میں کہیں زیادہ سینئر خواجہ آصف نے بھی ایک ٹی وی پروگرام میں دعویٰ کیا ہے کہ پیپلز پارٹی بھی استعفے دینے کے فیصلے پر متفق ہے.

مسلم لیگ ن میں پارٹی صدر کے بعد چئیرمین راجہ ظفر الحق، سینئر نائب صدور کی موجودگی کے باوجود پارٹی میں خود آگے آجانے والی نائب صدر مریم نواز نے استعفے نہ دینے والوں کیلئے دھمکی آمیز لہجہ اپنایا ہے.

جے یو آئی ف کے امیر مولانا فضل الرحمان تو قومی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کے حلف نہ لینے کے بھی حامی تھے تاہم پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے اس وقت ان کے موقف کو پذیرائی نہیں دی.

پی ڈی ایم کی جو جماعتیں استعفوں کی حمائتی ہیں ان میں زیادہ تر کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ اسی لئیے سیاست میں ہلچل مچے رہنے کیلئے حمایت کر رہے ہیں.

اے این پی بھی پی ڈی ایم کا حصہ ہے لیکن ابھی تک اسفندیار ولی نے قیادت کرنے کی بجائے میاں افتخار کو آگے کر رکھا ہے اور بڑے جلسوں سے خطاب کرنے سے بھی اجتناب برتا ہے یعنی اگر تحریک کامیاب ہوئی تو آگے آئیں گے.

نواز شریف اور ان کے بچے، شہباز شریف اور ان کے بچے، اور خود مریم نواز کے بچے گرفتاریوں اور کورونا خطرات کے پیش نظر جلسوں میں شامل نہیں ہیں لیکن لاہوریوں سمیت عوام پر شرکت کیلئے دباؤ ڈالا جارہا ہے.

قابل اعتماد ذرائع کے مطابق اپوزیشن کے ان جلسوں کیلئے انھیں کہیں سے امید دلائی گئی ہے اسی لئیے مریم نواز اور مولانا محاذ آرائی پر بھی آمادہ ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کو پتہ ہے استعفوں پر زیادہ نقصان ان کا ہونا ہے.

بلاول بھٹو زرداری زرداری کئی بار پارلیمنٹ سے باہر کردار ادا کرنے کے موقف کی مخالفت بھی کرتے آئے ہیں اور ان کا یہ واضح موقف ہے کہ جمہوریت میں تبدیلی ایوان کے اندر سے آنی چاہئے.

ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ بھی پارٹی کے اندر استعفوں کے معاملے پر مخالفت کی جارہی ہے، پی پی رہنماؤں کا موقف ہے کہ یہ سسٹم کیلئے درست فیصلہ نہیں ہے اور دوسرا اس سے سب سے زیادہ نقصان پیپلزپارٹی کا ہے جس کی صوبے میں حکومت ہے.

اپوزیشن جماعتوں کا استعفوں کے معاملے پر بھی امتحان شروع ہونے والا ہے کیونکہ استعفوں پر اتفاق رائے موجود نہیں ہے. ن لیگ سے مریم نواز استعفے مانگ رہی ہیں جو خود پارلیمنٹ کا حصہ ہیں نہ پارٹی منشور کے مطابق پارٹی کی سربراہی کیلئے اہل ہیں.

وزیراعظم عمران خان سلیکٹڈ ہیں یا نہیں اس بات سے قطع نظر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عمران خان غیر روایتی سیاستدان ہیں اور وہ ان حالات میں نتائج کی پرواہ کئے بغیر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے.

وجوہات جو بھی ہیں یہ سچ ہے کہ معیشت کمزور ہے، مہنگائی پر حکومت تمام تر دعووں کے باوجود قابو نہیں پا سکی، منتخب حکومت اپنے دور کی آدھی مدت پوری ہونے کے باوجود اپنے بڑے وعدے بھی پورے نہیں کر سکی.

عمران خان کی اچھی اور متاثر کن تقاریر، وژن اور کرشماتی شخصیت حقیقت سہی لیکن عوام کو ریلیف کہاں ملا؟ بجلی، گیس، پٹرولیم کی قیمتیں مسلسل بڑھتی رہیں، چینی آٹا تک عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو چکا ہے.

وزیراعظم کو اپوزیشن کو لتاڑتے یہ بات بھول جاتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے عوام کو کیا دیا ہے، قرضے تو ہر حکومت لیتی بھی ہے اتارتی بھی ہے اس عمل سےعوام کی ضروریات کو کبھی نہیں جوڑا جاسکتا ہے.

Comments are closed.