آذر بائیجان نے آرمینیا سے24دیہات، ایک شہر آزاد کرا لیا

فوٹو: فائل

باکو(ویب ڈیسک)آذر بائیجان جنگ کرکے آرمینیا سے مزید کئی دیہات اور ایک شہر آزاد کرا لیے ہیں دونوں ممالک کے درمیان لڑائی جاری ہے۔

پاکستان میں آذر بائیجان کے سفیر علی علیزاد نے ٹویٹر پر اُردو زبان میں ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ مزید 24 دیہات اور آذر بائیجان کے زنجیلان شہر کو گزشتہ روز آرمینیائی قبضے سے آزاد کرا لیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ آج تک آذربائیجان کے 95 گاؤں، 1 قصبہ، اور 3 شہر آرمینیائی قبضے سے آزاد ہیں۔ جنوبی قفقاز میں تب تک امن و سلامتی نہیں ہوسکتی جب تک آرمینیا جارحیت بند نہیں کرتا اور آذربائیجان کے مقبوضہ علاقے آزاد نہ کرتا۔

دونوں ممالک میں نیگورنوکاراباخ میں لڑائی جاری ہے جبکہ آرمینیا نے اعتراف کیا ہے کہ ہماری فوج کے اب تک 773 اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق آرمینیا اور آذربائیجان نے نیگورنو کاراباخ میں مزید جھڑپوں کی تصدیق کی ہے جہاں لڑائی کو تین ہفتے ہوچکے ہیں جبکہ جنگ بندی کی کوششیں بھی ناکام ہوچکی ہیں۔

ادھرآذربائیجان کی وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ آرمینیا کی فوج کی جانب سے شیلنگ کا سلسلہ تھما نہیں اور ترتار اور آغدام میں مختلف علاقوں کو نشانہ بنایا گیا جہاں 2شہری جاں بحق اور ایک زخمی ہوا۔

دوسری طرف آرمینیا کی وزارت دفاع کی ترجمان سشان اسٹیپانیان نے کہا کہ جنوبی علاقوں میں لڑائی میں شدت آئی ہے اور آذربائیجان کی فورسز کی طرف سے ہمیں مزاحمت کا سامنا ہے۔

آذربائیجان کے صدر الہام علی یوف کا کہنا تھا کہ ان کی فوج نے جبرائیل اور فضولی کے خطے میں کئی گاؤں اور شہروں میں قبضہ حاصل کر لیا ہے۔ عالمی سطح پر نگورنو کارا باخ آذربائیجان کا تسلیم شدہ علاقہ ہے تاہم اس پر آرمینیا کے قبائلی گروہ نے فوج کے ذریعے قبضہ کررکھا ہے۔

خیال رہے کہ خیال رہے کہ نیگورنو کاراباخ میں آرمینیا کا قبضہ 90 کی دہائی سے ہے جبکہ عالمی سطح پر اس کو آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ جب کہ اسی قبضے کے باعث پاکستان آرمینیا کو تسلیم نہ کرنے والا واحد ملک ہے۔

الہام علییوف نے کہا کہ ہماری فورسز نے نیگورنو-کاراباخ کے جنوبی علاقے میں زینگیلان اور کئی قریبی گاؤں میں آرمینیا کی فوج کو پیچھے دھکیل دیا اور قبضہ کر لیا ہے۔آذربائیجان کے حکام نے اپنے فوجی نقصان سے سے آگاہ نہیں کیا لیکن 61 شہریوں کے ہلاک اور 291 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔

Comments are closed.