خصوصی خاتون”فوزیہ لونی” کا انٹرویو

ثاقب لقمان قریشی

ایک اور باہمت خصوصی خاتون”فوزیہ لونی” کا،، زمینی حقائق ڈاٹ کام،، کے ساتھ تفصیلی انٹرویو.. کہتی ہیں.. خود اعتمادی کے ہتھیار سے خصوصی خواتین اپنے تمام مسائل حل کر سکتی ہیں.

نام: فوزیہ لونی
تعلیم: 1۔ ایم-اے ایجوکیشن 2۔ایم-اے اسلامیات 3۔ ایم –فل ایجوکیشن جاری ہے
رہائش: لونی (ڈسٹرکٹ سبی)
عہدے: 1۔ ایگزیکٹو ڈائرنیکٹر (نیشنل فارم فار وومن ود ڈس ایبلٹی) 2۔ گروپ ممبر انسیپشن

خاندانی پس منظر:

والد صاحب محکمہ لائیو سٹاک سے ریٹائرڈ ہیں۔ خاندان چھ بہنوں اور دو بھائیوں پر مشتمل ہے۔ بڑے بھائی سرکاری ملازم ہیں، تین بڑی بہنیں شادی شدہ ہیں تینوں گریجویٹ ہیں، ایک بھائی انجنیئر ہے،اسلام آباد میں ملازمت کر رہے ہیں، ایک بہن ایم-فل جبکہ دوسری بی-ایس کی طالبہ ہیں۔

سوال: معذوری کا شکار کیسے ہوئیں؟

آٹھ ماہ کی عمر میں پولیو کا شدید اٹیک ہوا۔ شدید بخار کے ساتھ ٹانگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ والد صاحب نے برسرروزگار نہ ہونے کے باوجود بہت بھاگ دوڑ کی۔علاج سے اتنا افاقہ ہوا کہ ہاتھوں نے کام کرنا شروع کر دیا اور بیٹھنے کےقابل ہوگئیں۔لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے علاج ذیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔

سوال: بچپن کیسا گزرا کس قسم کے کھیل کھیلا کرتی تھیں؟

فوزیہ : بچپن میں الگ تھلگ رہتی تھی۔ ہلکی پھلکی شرارتوں کے ساتھ شخصیت میں سنجیدگی کا عنصر نمایاں تھا۔ دل میں عام بچوں کی طرح بھاگنے دوڑنے کی خواہش تو رہتی تھی ۔ لیکن ایسا ممکن نہ تھا۔ گڑیوں سے کھیلنا انھیں تیار کرنا ان سے باتیں کرنا بے حد پسند تھا۔

سوال: ابتدائی تعلیم کے حصول میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

میٹرک تک تعلیم اپنے گاؤں کے سکول سے حاصل کی۔ ابتدائی دنوں میں ویل چیئر نہ ہونے کی وجہ سے بڑی بہنیں گود میں اٹھا کر سکول لایا اور لے جایا کرتی تھیں۔ ویل چیئر خرید لینے سے مشکلات میں کچھ کمی ضرور آئی لیکن رسائی کے مسائل اسی طرح برقرار رہے۔ سکول میں ریمپ اور قابل رسائی باتھ روم نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ سکول انتظامیہ نے مسئلے کا نوٹس لیتے ہوئےریمپ بنوا دی۔ فوزیہ کی آنٹی اس سکول میں استاد کے فرائض سر انجام دے رہی تھیں وہ خود بھی انکی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں ،انکی وجہ سے دوسرے اساتذہ کا رویہ بھی ہمدردانہ رہتا تھا۔

سوال: کالج کیسے آیا جایا کرتی تھیں؟

فوزیہ کہتی ہیں میرے لئے سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ گردونواح میں کوئی کالج نہیں تھا۔ نزدیک ترین کالج بھی گاؤں سے گیارہ کلومیٹر دور شہر میں واقع تھا ۔کالج آنے جانے کیلئے ایک وین لگا رکھی تھی۔ جس میں اترنے چڑھنے میں سہیلیاں مدد کرتی تھیں۔ ویل چیئر کو ساتھ لے کر سفر کرنا مشکل کام تھا اسلیئے ایک اضافی ویل چیئر کالج میں رکھ دی گئی۔

کالج کی تعلیم کے مسائل سکول سے ذیادہ مختلف نہ تھے۔ ریمپ، کلاسسز کا اوپر نیچے ہونا، باتھ تک رسائی میں مشکلات کے ساتھ کالج کی تعلیم جاری و ساری رہی ۔ لیکن تب میں ماضی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ چکی تھی۔ اسلیئے ہر مسئلے کا حل فوری طور پر نکال لیا کرتی تھی۔ ساری تکا لیف کے باوجود اچھے نمبروں سے گریجویشن کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

سوال: سب اس بات پر کیوں بضد تھے کہ آپ کو یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لینا چاہیے؟

بی-اے کے بعد خاندان کے بہت سے لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ فوزیہ کو مزیدتعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رکھنا چاہیے۔ یونیورسٹی آنا جانا، ہاسٹل میں رہنا انکے لیئے کسی چلینج سے کم نہیں ہوگا پھر ماسٹرز کر نے کا فائدہ ہی کیاہوگا ۔
مالی مشکلات کے باعث خاندان تذبذب کا شکار تھا۔ بات انکل تک جا پہنچی جنکی بات خاندان میں سنی جاتی تھی۔انھوں نے بڑی خوبصورتی سے تعلیم کی اہمیت اور افادیت کو بیان کیا۔ انکل نے کہا کہ خصوصی لڑکی کیلئے تعلیم کسی ہتھیار سے کم نہیں۔ تعلیم سےاچھی نوکری کے حصول کے ساتھ باوقار زندگی بھی گزاری جاسکتی ہے۔ انکل کا متاثر کن لیکچر میرے لئے یونیورسٹی میں داخلے کا سبب بنا۔

سوال: یونیورسٹی کا دور کیسا رہا؟

یونیورسٹی میں اساتذہ، انتظامیہ اور دوستوں کا بھر پور ساتھ رہا۔ رسائی کا مسئلہ ہمیشہ کی طرح اول نمبر پر رہا۔ یونیورسٹی کافی اونچائی پر واقع تھی۔ مینول ویل چیئر کے سہارے چڑھائی نہیں چڑھی جاسکتی تھی۔ چڑھائی چڑھتے چڑھتے سہیلیوں کے قدم اکثر ڈگمگاجایا کرتے تھے۔

سوال: سوشل ورک کا رجحان کیسے پیدا ہوا؟

فوزیہ لونی کا جواب تھا کہ ایم-اے کرنے کے بعد 2012 میں خصوصی افراد سے سوشل میڈیا پر روابط قائم کرنا شروع کردیئے۔ آہستہ آہستہ باقاعدہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ لوگوں کی تکالیف دیکھ کر دل ہی دل میں کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہونے لگا۔ وقت گزرنے کےساتھ ساتھ خصوصی افراد کے مسائل پر کام کرنے والی این-جی-اووز سے بھی روابطے ہونا شروع ہوگئے۔ اسطرح این-جی-اووز کی میٹنگز اور سیمینارز میں اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملنے لگا۔

سوال: "نیشنل فارم فار ویمن ود ڈس ایبلٹی” کن امور پر کام کر رہی ہے؟

نیشنل فارم فار ویمن ود ڈس ایبلٹیز، ڈی-پی-اوز کا نیٹ ورک ہے تمام سرکاری، غیر سرکاری اور بین الاقوامی این-جی-اوز اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ نیٹ ورک کا قیام 2009 میں عمل میں آیا۔ بنیادی مقصد میں خواتین باہم معذوری کو مرکزی دھارے میں لانااور یو-این-آر-پی-ڈی کی تمام شقوں کو نافظ کرانا ہے۔ نیٹ ورک نے تمام صوبوں میں خواتین باہم معذوری سے متعلق قانون سازی کے عمل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

سوال: "انسیپشن” کیا ہےاور دوسری این-جی-اووز سے کس طرح مختلف ہے؟

انسیپشن نامی این۔جی-او کی گروپ ممبر ہوں ۔ این-جی-او کی تمام ممبرز پڑھی لکھی خواتین باہم معذوری ہیں، سب جاب لیس ہیں ۔ "انسیپشن” اب تک کوئٹہ کے بہت سے مالز، شاپنگ سینٹرز، بلڈنگز اور دفاتر وغیرہ میں ریمپس بنوا چکی ہے۔
انسیپشن اپنے آپ کو روائیتی این-جی-او تسلیم نہیں کرتی ۔ ایک طرف یہ خصوصی افراد کو تمام معاشرتی اور معاشی سرگرمیوں کا حصہ بنانا چاہتی ہے تو دوسری طرف عام خواتین کی تولیدی صحت جیسے مشکل موضوع پر متعدد ورک شاپس بھی کرواتی ہے۔ مشکل موضوعات پر بات کرنے کے حوالے سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی ورک شاپس تھیں جن میں عام خواتین اور خصوصی خواتین کے تولیدی مسائل پر بھی بات کی گئی۔
انسیپشن "فلم میکنگ” پر بھی ورک شاپس کروا تی ہے۔جن کا مقصد خصوصی افراد کو کیمرے کے پیچھے ہونے والی سرگرمیوں میں شامل کرانا اور انکے لیئے فلم میکنگ کی صنعت کے دروازے کھولنا ہے۔

سوال: کتنے ممالک کے دورے کر چکی ہیں اور کیا فرق محسوس کرتی ہیں؟

امریکہ اور نیپال کا دورہ کرچکی ہوں ۔ امریکہ میں خصوصی شخص کسی کی مدد اور سہارےکے بغیر اپنے بہت سے کام کر سکتا ہے۔ تعلیمی ادارے، ہوٹلز، پارکس، شاپنگ سینٹرز، سیاحتی مقامات، ٹرانسپورٹ ہر جگہ رسائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ نیپال کا امریکہ سے مقابلہ تو نہیں کیا جاسکتا پھر بھی نیپال میں دستیاب سہولیات کو وطن عزیز سے بہتر قرار دیتی ہیں۔

سوال: وطن عزیز کے سیاحتی مقامات پر رسائی کی کیسی سہولیات موجود ہیں؟

ویل چیئر پر مری، ناران، گلگت، ہنزہ، چلاس وغیرہ جیسے سیاحتی مقامات کی متعدد بار سیر کر چکی ہیں۔ تھوڑی مشکلات کے باوجود رسائی کے انتظامت کو خصوصی افراد کیلئے بہترین ہیں اور سب دوستوں کو ان مقامات کی سیر کا مشورہ دیتی ہوں ۔

سوال: مایوس ہوتی ہیں تو کیا کرتی ہیں؟

زندگی اتار چڑھاؤ کا نام ہے۔مایوسی سے دور رہنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مایوسی کی حالت میں خودکو مصروف رکھتی ہیں۔ اگر کام میں دل نہ لگے تو عبادت کے ذریعے خدا سے مدد مانگتی ہوں۔

سوال: فارغ وقت میں کیا کرتی ہیں؟

پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ ہر وقت اچھی کتابوں کی تلاش میں رہتی ہوں ۔ فارغ ا وقات میں پڑھنا پسند ہے۔

سوال: کھانے میں کیا پسند کرتی ہیں؟ کیا کوکنگ بھی کرلیتی ہیں؟

دیسی ،چائنیز ہر قسم کے کھانے پکا لیتی ہوں ۔ دالیں اور سبزیاں پسند ہیں۔ حلیم کو پسندیدہ ڈش ہے ۔

سوال: آپ کی نظر میں بلوچستان کی خصوصی خواتین کے اہم ترین چیلنجز کیا ہیں؟

بلوچستان کی خواتین باہم معذوری کے مسائل کو ملک کےدوسرے صوبوں کی خواتین سے مختلف قرار دیتی ہیں۔ دہشت گردی، غربت، بے روگاری، تعلیم اور صحت کی سہولیات کی کمی کو مسائل کی بڑی وجہ سمجھتی ہیں۔ فوزیہ کہتی ہیں کہ اگر ہم تعلیم کی بات کریں تو بلوچستان کو سکولوں کی کمی کا سامنا ہے، آگہی کا فقدان، قبائلی روایات اور غربت جیسے مسائل خواتین کے راستے کی بڑی رکاوٹین ہیں۔

سوال: کیا خصوصی خواتین کو شادی کرنی چاہیئے؟

خصوصی خواتین کو شادی کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ عام خواتین کو حاصل ہے لیکن خصوصی خواتین کے معاملے میں ہمارا معاشرہ تہمات اور خدشات کا شکار نظر آتا ہے۔ گھر کے کام کیسے کرے گی؟ بچے ہونگے یا نہیں؟ لوگ کیا کہیں گے؟ جیسے سولات شادی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
ملک کی 7 سے 8٪ آبادی کا شادی کے بندھن سے محروم رہ جانا انسانی المیے سے کم نہیں۔ اس کا واحدحل "گریٹ ڈیبیٹ” سے ممکن ہے۔ جب تک افراد باہم معذوری اور معاشرے کے درمیان اس مسئلے پر کھل کر بحث نہیں ہوگئی اس وقت تک معاشرہ تحفظات کا شکار رہے گا۔

سوال: خصوصی خواتین کو کیا پیغام دینا چاہیں گیں؟

فوزیہ کہتی ہیں کہ خواتین باہم معذوری کو ہر مسئلےپر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خصوصی خواتین کے مسائل معاشرے کے کسی بھی طبقے سے کہیں ذیادہ ہیں۔ خود اعتمادی کو ایسا ہتھیار قرار دیتی ہیں جس سے تمام مسائل کا حل ممکن ہے۔

Comments are closed.