مصنوعی ذہانت انقلاب ضرور ہے مگرابھی یہ ہاف کُکڈ ریسپی ہے،ڈاکٹر اسد منیر
فوٹو : پی آر
اسلام آباد: الائنس پاکستان کے تحت ویبینار سے مختلف تعلیمی اور آئی ٹی ماہرین کا خطاب کیا اور ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اے آئی کا زیادہ تراستعمال نقل شدہ اسائنمنٹ بنانے تک محدود ہے, ماہرین نے کہا ہے کہ جدید دور میں تعلیم سمیت تمام شعبوں میں ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہو چکا ہے۔
تعلیم اور ٹیکنالوجی کے باہمی تعلق پر ایک ویبینار میں ماہرین نے کہا کہ اساتذہ کی جدید خطوط پر تربیت اور نصاب کو ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، مصنوعی ذہانت کے منفی اثرات سے بچاؤ کے لیے محتاط حکمت عملی بھی ضروری ہے۔
یہ بات مختلف تعلیمی ماہرین، آئی ٹی ماہرین اور محققین نے ایک ویبینار میں کہی، جس کا انعقاد الائنس پاکستان نے کیا۔ ویبینار میں یونیورسٹی پروفیسرز، اسکول اور کالج اساتذہ، آئی ٹی ماہرین، اور پالیسی سازوں نے شرکت کی۔
ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ڈاکٹر اسد منیر نے کہا کہ مصنوعی ذہانت انقلاب ضرور ہے مگرابھی یہ ہاف کُکڈ ریسپی ہے،ڈاکٹر اسد منیر کا کہنا تھا کہ اس کی بہت سی چیزیں ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں۔ پاکستان میں طلبہ زیادہ تر نقل شدہ اسائنمنٹس تیار کرنے کے لیے اے آئی استعمال کر رہے ہیں، جو ایک بڑا مسئلہ ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ اوپن یونیورسٹی ایسا نظام متعارف کروا رہی ہے جس کے ذریعے چوری شدہ مواد جمع کرانا ممکن نہیں ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اچھے اے آئی ٹولز مہنگے ہیں اور سب کی رسائی میں نہیں، جبکہ جو ٹولز باہر سے آ رہے ہیں وہ کسی نہ کسی ثقافتی یا نظریاتی تعصب کے ساتھ ہم تک پہنچ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب تک پاکستان خود ایسی ٹیکنالوجی بنانے کے قابل نہیں ہوگا، ہم دوسروں کے محتاج رہیں گے۔
وزارتِ تعلیم کی ارلی چائلڈ ایجوکیشن ایکسپرٹ ڈاکٹر شاہدہ کیانی نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کے آنے سے اساتذہ پر غیر تدریسی کاموں کا بوجھ کم ہوا ہے، جس سے وہ تدریس پر زیادہ توجہ دے سکتے ہیں تاہم اساتذہ کو اے آئی ٹولز کی تربیت دی جانی چاہیے اور طلبہ کو بھی اس حوالے سے آگاہ کیا جائے۔
ماہر تعلیم ڈاکٹر شیر علی نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے فوائد کے ساتھ ساتھ کچھ چیلنجز بھی پیدا ہوئے ہیں، جن میں موسمیاتی تبدیلی اور محنت کی عادت میں کمی شامل ہے۔ ان کے مطابق، ٹیکنالوجی نے اساتذہ اور طلبہ سے محنت کا مادہ چھین لیا ہے، کیونکہ ہر چیز فوری طور پر میسر آ جاتی ہے۔
آئی ٹی ماہر محمد کاشف نے کہا کہ "ہمیں ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا تھا، مگر بدقسمتی سے ٹیکنالوجی ہمیں استعمال کر رہی ہے۔” انہوں نے کہا کہ آن لائن تعلیم کے لیے درکار بنیادی سہولیات، جیسے کہ لیپ ٹاپ اور تیز انٹرنیٹ، سب کے پاس دستیاب نہیں ہیں۔
انہوں نے والدین پر زور دیا کہ وہ بچوں کو اے آئی کے استعمال میں مکمل آزادی نہ دیں اور ان پر نظر رکھیں تاکہ وہ اس ٹیکنالوجی کو غلط استعمال نہ کریں۔
ماہر تعلیم ڈاکٹر سمرین صبا نے کہا کہ ٹیکنالوجی کا استعمال نہ کرنے والے پیچھے رہ جائیں گے۔ تدریسی مواد کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے اور اساتذہ کی جدید تربیت کے لیے اقدامات ضروری ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ فن لینڈ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ابھی تک طلبہ کے لیے مصنوعی ذہانت کے استعمال پر پابندی ہے، کیونکہ اس کے اثرات پوری طرح واضح نہیں ہوئے۔
ماہر تعلیم مظہر ملک نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے فوائد کو صرف شہری علاقوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ دیہی اور پسماندہ علاقوں تک بھی پہنچانا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ اے آئی کے استعمال میں درپیش چیلنجز وقت کے ساتھ ساتھ حل ہو جائیں گے، لیکن اس کے لیے حکومت اور تعلیمی اداروں کو متحرک ہونا ہوگا۔
الائنس پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر طارق خان نے ویبینار کے اختتام پر کہا کہ "ہم ٹیکنو فیوڈلزم اور ٹیکنو کیپٹلزم کے دور سے گزر رہے ہیں، جہاں طاقتور ممالک کا مقابلہ اب ٹیکنالوجی کے میدان میں ہو رہا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ٹیکنالوجی کو گراس روٹ لیول تک پہنچانے کی ضرورت ہے، تاکہ طلبہ اور اساتذہ دونوں اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ "ہمارے تعلیمی نصاب، تدریسی طریقہ کار، اور گریڈنگ سسٹم کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا ہوگا تاکہ ہم عالمی سطح پر مقابلہ کر سکیں۔
ویبینار سے ماہر تعلیم صائمہ اعوان ، صحافی شبیر حسین اور حسنہ خٹک نے بھی خطاب کیا۔
Comments are closed.