بنگلہ دیش کے طلبہ طیب اردوان، عمران خان اور کیجریوال سے متاثرہیں، بی بی سی کی رپورٹ
فوٹو : فائل بی بی سی اردو
ڈھاکہ : بنگلادیش میں گذشتہ 40 سالوں میں کوئی بھی نو تشکیل شدہ پارٹی انتخابی میدان میں اتنا فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی جتنا نئی سٹوڈنٹ پارٹی کتنی مقبول ہوگی، بنگلہ دیش کے طلبہ طیب اردوان، عمران خان اور کیجریوال سے متاثرہیں، بی بی سی کی رپورٹ.
اس حوالے سے بی بی سی اردو نےایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد ملک میں مختلف اوقات میں مختلف ناموں سے کئی نئی سیاسی جماعتیں بنیں۔ ان میں سے کچھ اب بھی موجود ہیں تاہم کُچھ وقت کے ساتھ ساتھ ملکی سیاسی منظر نامے سے غائب ہو گئیں۔
رپورٹ کے مطابق ان میں سے کچھ سیاسی جماعتیں دائیں بازو کی ہیں اور کچھ بائیں بازو کی۔ کچھ جماعتیں قوم پرستی کا نعرہ لگاتی رہی ہیں جبکہ دیگر سیکولر یا مذہبی نظریات کے ساتھ آگے بڑھی ہیں۔
نئی جماعتوں میں بی این پی یعنی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔ یہ وہ سیاسی جماعت تھی جس نے یکطرفہ طور پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اقتدار میں آئی۔
اس کے علاوہ بی این پی کے علاوہ جاتیہ پارٹی بھی یکطرفہ طور پر ہی انتخابات میں کامیاب ہوئی مگر وہ انتخابات مشکوک تھے کیونکہ اُن میں مُلک کی سیاسی جماعتوں کی قابل ذکر تعداد نے حصہ نہیں لیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو نئی جماعتیں تشکیل دی گئیں ان میں سے کوئی بھی انتخابی عمل سے فائدہ اُٹھا کر اقتدار میں نہیں آسکی اور نہ ہی انھوں نے ملک بھر میں کوئی مضبوط تنظیمی پوزیشن قائم کی۔
اسی لئے بنگلادیش کی سیاست وسیع پیمانے پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی: عوامی لیگ اور بی این پی، اب ملک میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمہ اور عبوری حکومت میں شامل رہنماؤں کا کہنا ہے کہ فروری کے تیسرے ہفتے میں ایک نیا ’سٹوڈنٹ گروپ‘ بننے جا رہا ہے۔
نئے سٹوڈنٹ گروپ کی تشکیل کی نگرانی نیشنل سٹیزن کمیٹی اور امتیازی سلوک کے خلاف طلبہ تحریک کے رہنما کر رہے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ نیا سٹوڈنٹ گروپ بنگلہ دیش میں بائیں بازو یا دائیں بازو کے سیاسی رجحانات سے آزاد ہو۔ جسے وہ اعتدال پسند پوزیشن کہتے ہیں۔
ملکی سیاست پر گفتگو کرتے ہوئے نیشنل سٹیزن کمیٹی کے ممبر سکریٹری اختر حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم بائیں بازو اور دائیں بازو کی سیاست سے آزاد ہو کر مرکزی سیاست کی بات کر رہے ہیں۔ ہم بنگلہ دیش کے معاملے پر متحد رہنا چاہتے ہیں۔ ہم اسلاموفوبیا یا بنیاد پرست اسلامی یا بنیاد پرست ہندوتوا کی سیاست میں نہیں پڑنا چاہتے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نظریہ جو بھی ہو اس بات کا اندازہ لگانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ نئی سٹوڈنٹ پارٹی کتنی مقبول ہوگی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے۔

لیکن گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کم وقت میں نئی سیاسی جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اور بنگلہ دیش کے طلبہ کی نظریں انھی سیاسی شخصیات کی طرف ہیں۔
بنگلادیشی طلبہ میں ترکی کے رجب طیب اردوغان کی اے کے پارٹی، پاکستان میں عمران خان کی تحریک انصاف اور انڈیا میں اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی نے خاص طور پر عالمی توجہ حاصل کی ہے۔
طلبہ کامیابی کے ’منتر‘ کی تلاش میں ان تینوں نئی جماعتوں کے پروگرامز، تنظیمی ڈھانچے وغیرہ کا باغور مطالعہ کر رہے ہیں۔ مثلاً وہ اس حوالے سے غور کر رہے ہیں کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ہوتے ہوئے تیسرے قوت کیسے بنے؟
وہ عوامل اور محرکات کو سمجھنا چاہتے ہیں کہ عوام میں عمران خان مقبولیت کیسے حاصل ہوئی؟ جب اس بارے میں نوجوانوں سے پوچھا گیا تو نیشنل سٹیزن کمیٹی کے جوائنٹ کنوینر علی احسن جنید نے بتایا کہ وہ اس معاملے پر کام کر رہے ہیں اور بات چیت بھی جاری ہے کہ یہ جماعتیں لوگوں میں کیسے مقبول ہوئیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’ہم اس بات کا مطالعہ کر رہے ہیں کہ یہ سیاسی جماعتوں اصل میں لوگوں تک کیسے پہنچیں، لوگوں کے مسائل اور اُن کے جذبات کو سمجھنے کے لیے انھوں نے کس طرح کی حکمت عملی اپنائی اور ان کا آئینی ڈھانچہ کیسا ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق طلبہ مقبولیت کے ساتھ ساتھ ایک ایسے نظریہ کے متلاشی ہیں جو دیرپا ہو اور ملک کا مستقبل اور عوام کے مسائل کا جو ادراک بھی رکھتا ہو.
Comments are closed.