عرفان حیدر کو نو پانچ کی ڈیوٹی کی چکی میں پسنے کے بعد آفس سے گھر جاتے ہوئے موٹر سائیکل پرآنکھ لگ گئی۔۔ وہ سیٹ پر سُن سا پڑا تھا کہ اچانک اس وقت اُس آنکھ کھل گئی جب عین اس کی بائیک دوسری بائیک سے بوسہ لینے والی ہی تھی۔ خداخدا کرکے وہ بچ گیا لیکن اسے یقین نہیں آرہا کہ وہ سلامت ہے کیونکہ بقول عرفان ، چند لمحوں کیلئے وہ بالکل سوہی گیا تھا اورجھٹکے سے وہ عالم نیند سے بیدار ہوگیا ۔۔
اس نے موٹر بائیک سائیڈ پر کی ، سانس سنبھالی، پسینے پونجھے اور آسمان کی طرف دیکھ کر اللہ کا شکر بجالانے لگا کیونکہ اسے خود کو بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ حادثے سے وہ بچ گیا۔ لیکن وہ بچا کیسے اور کس نے بچایا ۔۔۔ یہ انتہائی دلچسپ کہانی ہےاور شاید قابل تقلید بھی ۔
یہ واقعہ سناتے ہوئےعرفان کے ہاتھ میں ایک تھیلی تھی جس میں باجرہ اور چینی تھی ۔اس نےشاپر سے مٹھی بھر دانے نکالے ۔۔ میں سمجھا انہوں نے یہ دانے کسی پالتو پرندے کیلئے خریدے ہیں لیکن ایسا نہ تھا ۔۔ پوچھنے پرعرفان نے بتایا یہ چونٹیوں کی خوراک ہے ۔۔۔ ارے نہ کریں ۔۔۔ میری حیرت پر عرفان نے یقین دلاتے ہوئے کہا جی ۔۔ یہ چونٹیوں کیلئے لایا ہوں ۔ بیگم نے یہ شاپر میرے بیگ میں رکھا ہے ۔ اور یہ ان کی روٹین ہے۔
ہفتے میں ایک دو بار لازمی مکس چینی اور باجرہ شاپرمیں ڈال کر دیتی ہے اور واپسی پر اس حوالے سے دریافت بھی کرتی ہے ۔
چونٹیوں کیلئے دور سے دانے لانا اور چھوٹی مخلوق کی دہلیز پر دستک دے کر انہیں خوراک فراہم کرنا یقینا ان سنا اور ان دیکھا عمل ہے ۔ نفسا نفسی کے اس دور میں انسان انسان کو بھول چکا لیکن اگر کوئی رینگے والی چھوٹی مخلوق کو یاد رکھتا ہے تو قابل تحسین اور قابل قدر عمل ہے ۔ مجھے عرفان حیدر کی بات پر شاید یقین نہ آتا لیکن آفس میں ساتھ بیٹھی ہماری کولیگ ایمن سید نے چھوٹی مخلوق کے احساس کے بارے میں اس طرح کی ملتی جلتی اپنی بہن کی کہانی سنائی۔
نورایمن سید نے بتایا کہ ان کی ہمشیرہ کو بلیوں کا بڑا خیال رہتا ہے ۔ وہ خود کھانا کھائے نہ کھائے ، روز چار پانچ بلیوں کو گیٹ پر بلاکر انہیں کچھ نہ کچھ کھلاتی ہے ۔ عرفان نے دانے کیمپیوٹر والے ٹیبل پر پھیلا کر بتایا کہ وہ اب یہاں سے اسلام آباد پریس کلب جائیں گےجہاں وہ چونٹیوں کے بلوں کے ارد گرد یہ دانے ڈالیں گا ۔
چونٹی جس کو عربی میں نمل کہا جاتا ہےاور قرآن پاک میں ایک مکمل سورۃ اس نام پر ہے ۔۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس سورۃ میں چونٹیوں کا ذکر ہے اسی سورۃ میں نہ صرف زمین پر آدم کی پیدائش سے لیکر آج تک کے سب سے بڑے طاقت وار اور عظمت والے بادشاہ پیغمبر حضرت سلیمان کا ذکر ہے بلکہ وادی نمل میں چونٹیوں کی گفتگو بھی درج ہے۔ اس دلچسپ سورۃ میں جہاں کمزور اور چھوٹی مخلوق کی بے بسی کی منظر کشی موجود ہے وہیں عظیم بادشاہ کی طاقت وجلال کی جھلک بھی نظر آتی ہے ۔۔۔
وادی نمل میں جب وقت کے بادشاہ کا لشکر داخل ہونے لگتا ہے تو گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنتے ہی چونٹیوں کی سردارنی اپنے پورے قبیلے کی چونٹیوں کو گھروں (بلوں) میں داخل ہونے کا حکم دیتی ہے ۔۔۔ خالق کائنات اللہ تعالی سمیع و بصیر ہے۔ بحیثت مسلمان ہمیں اس میں رتی بھر بھی شک نہیں ہے لیکن چونٹیوں کی گفتگو کو سورۃ میں منشن کرنے سے ہمارا ایمان اور بھی مضبوط اور تازہ ہوجاتا ہے کائنات کا خالق و مالک اس وسیع کائنات میں ہونے والی ہر گفتگو کوسنتا ہے ۔۔
عرفان حیدر کے ایمان و اعمال سے متعلق میں کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتا ہوں۔ اگرچہ ہم ایک دوسرے کو دو دہائیوں سے جانتے ہیں اور ایک دو اداروں میں ساتھ کام بھی کیا اور آج بھی ہم 365 نیوز میں اکٹھا کام کررہے ہیں لیکن دلوں اور اعمال کا حال اللہ ہی جانتا ہے۔۔ البتہ چونٹیوں کو یاد رکھنا اور ان کو ان کی دہلیز پر خوراک پہنچانا ۔۔ یہ ایسا احسن و قابل تعریف عمل ہے کہ جس کو سن کر کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر عرفان حادثے سے بچ گیا تو یقینا چھوٹی مخلوق کی دعا بھی اس میں شامل ہوسکتی ہے۔
کیونکہ اللہ تو وہی ہے کہ جس نے وادی نمل میں اہل نمل کی فریاد سنی تھی ۔ کیا پتہ کسی وقت اسلام آباد کی چونٹیوں کی کسی سردارنی نے یہ گفتگو کی ہو اور اپنے قبیلے کے مکینوں کو کہا ہوگا ۔۔ نکلو بلوں سے ، عرفان کھانا لیکر آگیا ہے ۔۔ اور یقین کیجئے اگر ایسی گفتگو ہوئی ہوگی تو سمیع و بصیر نے سنی ہوگی اور اسی عمل کے صدقے عرفان پر آنے والی مصیبت ٹل گئی ہو ۔۔
اس واقعہ یا اس عمل کو آپ تک پہنچانے کا مقصد یہ ہے کہ نیکی چھوٹی بڑی نہیں ہوتی ۔ نیکی نیکی ہوتی ہے ۔ آپ بلاشبہ کسی بھوکے انسان کو روٹی کھلائیں یا مسجد تعمیر کریں ۔ کسی مصیبت زدہ کی مدد کریں یا سو جانور خرید کر قربان کریں ۔۔ آپ یہ نہ سوچیں ۔۔ بس جس کی استطاعت ہے وہ عمل کریں ۔ لیکن شرط یہ ہے اس میں خلوص ہو ۔۔۔
Comments are closed.