بنی گالہ ”خوشامد“ کی زد میں

شمشاد مانگٹ

بنی گالہ میں چراغاں جاری ہے۔ اس وقت بنی گالہ پر ”کرم“ کی وہ بارش برس رہی ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی ”پُٹھیاں“ بھی سیدھی شمار ہو رہی ہیں۔عمران خان کی جدوجہد پر فلم بنانے کے لئے برطانیہ کی ایک ٹیم بھی اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ بنی گالہ میں موجود ہے ۔ عمران خان حقیقی معنوں میں ایک سیاسی اداکار کے طور پر بھی کام کر رہے ہیں۔

ملک گیر دوروں کے ساتھ ساتھ عمران خان بنی گالہ میں ہونے والی سیاسی میٹنگوں کی بھی صدارت کرتے ہیں اور ان سے فارغ ہوتے ہیں تو برطانوی فلم ساز انہیں اپنے کام میں لگا لیتے ہیں۔پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں عمران خان واحد سیاسی راہنما ہیں جو سیاست اور اداکاری ساتھ ساتھ کر رہے ہیں۔

ماضی میں تقریباً تمام سیاسی راہنما سیاسی اداکاری صرف عوامی جلسوں میں کرتے رہے ہیں لیکن عمران خان جلسوں میں سیدھی سادھی تقریر کرتے ہیں اور لچھے دار تقریر کی بجائے جانے والی حکومت کی کرپشن کہانیاں سنا کر عوام میں شعور بیداری کی کوشش کرتے ہیں ۔ البتہ برطانوی فلم ساز ان سے دبنگ سٹائل میں کام کروا رہے ہیں ۔ عمران خان کی اس فلم میں جمائما کا کردار سب سے مثبت شمار کیا جا رہا ہے اور ریحام خان سمیت کئی پاکستانی ”ہیروئنز “ کو ولن کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ البتہ یہ ابھی فیصلہ نہیں ہوا کہ محترمہ بشریٰ عمران کو ”آخری ہیروئن “ کے طور پر دکھایا جائے یا پراسرار طاقتوں کی مالک ”خاتون اول“ کا کردار دیا جائے ۔

رمضان المبارک کی وجہ سے بنی گالہ میں راتیں روشن ہیں اور کچھ راہنما اور سیاسی کارکن نوافل بھی وہیں پر ادا کر رہے ہیں ۔ ان نوافل کی خاص بات یہ ہے کہ ان کی ادائیگی کی تصاویر بنا کر ایسے گروپ میں شیئر کی جا رہی ہیں جو عمران خان کی نظر سے گزرتے ہیں۔ یہ نوافل اللہ تعالٰی کی رضا سے زیادہ قیادت کی ”رضا“ کے لئے ادا کئے جا رہے ہیں۔

عمران خان کی طویل سیاسی جدوجہد کے بعد یہ مقام آیا ہے کہ وہ اس وقت ایک ایسے ٹولے کے حصار میں ہیں جو انہیں حقیقت کم اور تعریفیں زیادہ سناتا ہے ۔ اقتدار کی ہوائیں بنی گالہ کی طرف چلتی دیکھ کر عمران خان کے گرد اس وقت سکیورٹی حصار سے زیادہ ”خوشامدی“ حصار نے جگہ بنا رکھی ہے ۔ عمران خان جتنی دیر بنی گالہ میں ہوتے ہیں ان کی نان سٹاپ ”اجتماعی خوشامد “ کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس کے بعد عمران خان کے اس خوشامدی ”دستے“ کی خوشامد کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ خوشامد در خوشامد کا یہ سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر جاری و ساری ہے۔

خوشامدی دستے کی خوشامد وہ لوگ کرتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح بنی گالہ کے محل میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان میں کئی ایسے ”ماہر خوشامدی “ بھی ہیں جن کے پاس ”الفاظ کے چموٹے “ کثیر تعداد میں ہوتے ہیں ۔ دوسرے درجے کے خوشامدیوں کو یہ کام کئی کئی گھنٹے کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات ان کی زبانیں بطور ”چموٹا“ کام کرتے کرتے تھک جاتی ہیں۔

خوشامد کے اس ”سلسلہ عمرانیہ “ میں ایک حیرت انگیز تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے ۔ بنی گالہ کی حدود کے اندر اور باہر جہانگیر ترین کی خوشامد کرنے والوں میں حیرت انگیز کمی واقع ہوئی ہے جس طرح پاکستانی معیشت میں روپے کی بے قدری ہوئی ہے اسی تناسب سے بنی گالہ میں جہانگیر ترین کی بے قدری کا گراف دیکھا گیا ہے ۔

البتہ نعیم الحق کی ”پُٹھی“ چپیڑ کے بعد ان کی خوشامد اور پارٹی کے اندر اور باہر مقبولیت میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہا جا رہا ہے کہ جس طرح عمران خان نے کرکٹ میں وسیم اکرم کو ”الٹے ہاتھ“ کا باؤلر متعارف کروایا تھا اسی طرح عمران خان نے اپنی پارٹی کے لئے نعیم الحق کو ” پُٹھی“ سپشلسٹ کے طور پر پالش کیا ہے ۔ عمران خان کی طرف سے نعیم الحق کی تعریف کے بعد ”چموٹا“ گروپ کو تین وقت نعیم الحق کی خوشامد کرنا پڑ رہی ہے ۔ چموٹا گروپ ایک دفعہ افطاری سے پہلے اور دوسری بار افطار کے بعد اور تیسری بار سحری کیلئے الگ نشست کا اہتمام کرتا ہے ۔

بہرحال نعیم الحق نے جس ”سفاکی“ اور صفائی سے چودھری دانیال عزیز کو اپنی ”پُٹھی“ کانشانہ بنایا ہے اس پرکم از کم 90 دن کی خوشامد تو بنتی ہے ۔ تحریک انصاف کے تیسرے درجے کے کارکن جو اسلام آباد تک تو کسی نہ کسی طرح ”لفٹ شفٹ “ لے کر پہنچ جاتے ہیں لیکن بنی گالہ محل تک پہنچنے کے لئے کسی پجارو میں لفٹ نہیں لے پاتے وہ شہر میں موجود بڑے ہوٹلوں میں ہونے والی افطار پارٹیوں کی تقاریب کا سراغ لگا کر وہاں پہنچ جاتے ہیں اور تحریک انصاف کے سینئر راہنماؤں کی کارکردگی پر اپنی ”تجزیہ نگاری “ کر کے ان کی نظروں میں اپنا مقام بلند کرنے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو جاتے ہیں ۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ”فیصلہ ساز“ ٹکٹ کے لئے درخواستیں دینے والے تمام امیدواروں کو ”امید“سے کر کے بھیج رہے ہیں اور ہر امیدوار کہتا ہے کہ ٹکٹ میری جیب میں ہے ۔ ایک محفل میں موجود تین امیدواروں کو بہت ہی پراعتماد دیکھا گیا اور تینوں امیدوار ایک دوسرے کو تسلیاں دے رہے تھے کہ ٹکٹ ملے یا نہ ملے ہمیں پارٹی کے لئے مل کر کام کرنا چاہئے ۔
ان میں ایک صاحب کو میں نے کریدا تو اس کا کہنا تھا کہ میرا ٹکٹ فائنل ہے باقی تو اب رسمی کارروائی ہے جبکہ دوسرے امیدوار کا کہنا تھا کہ پارٹی کے ماہر ڈاکٹروں نے ”سیاسی الٹرا ساؤنڈ “ میں میرے آنگن میں پارٹی ٹکٹ اترنے کی خوشخبری سنا دی ہے ۔ اس لئے میں پیشگی دوسروں کو اعتماد میں لے رہا ہوں ۔

تیسرے امیدوار کا دعویٰ یہ تھا کہ میرے ”سیاسی الٹر ساؤنڈ“ میں میرے آنگن میں جڑواں “ ٹکٹوں کے اترنے کی خبر دی گئی ہے اس میں ایک ٹکٹ قومی اسمبلی کا ہے اور ایک ٹکٹ صوبائی اسمبلی کا ہے اور مستقبل میں وزارت کے لئے بھی ”امید“ سے ہوں۔ تینوں امیدواروں کی گفتگو سن کر میں بے ساختہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہوں ۔ ”اللہ ہی جانے کون ”ممبر “ ہے ۔ عمران خان اپنے پارٹی ورکروں کو اللہ کا شکر ادا کرنے اور مستقبل بہتر ہونے کی دعائیں مانگنے کی ترغیب دے رہے ہیں لیکن ”چموٹا “ گروپ ”رت جگے “ صرف عمران خان کی خوشنودی کے لئے کر رہا ہے ۔ بنی گالہ میں خوشامد کی جو آندھیاں چل رہی ہے ان آندھیوں میں تحریک انصاف کے کئی مخلص کارکن ”اڑ “جائیں گے اور مورخ ایک بار پھر لکھے گا کہ عمران خان کو خوشامدیوں نے گھیر لیا اور کارکن دور ہو گئے اور پھر پارٹی ناکام ہو گئی ۔ بنی گالہ محل خوشامد کے طوفان کی زد میں ہے۔ اور ڈر ہے کہ خوشامدی کہیں ایک اور نیازی کو ہتھیار پھینکنے پر مجبور نہ کردیں۔

Comments are closed.