ہمارا نوحہ اور روحوں کا سوگ

50 / 100

خالد مجید

احتجاج جمہوریت کا حسن ہے , بالکل اسی طرح جیسے مذاکرات جمہوریت کامظہر ہیں ۔ پھر سیاست میں مذاکرات سے بڑھ کر کوئی بات اہم نہیں ہوتی، احتجاج میں انتہا پسندی اور انتشار سے ہمیشہ جگ ہنسائی ہوتی ہے ۔ جب بھی کبھی لاٹھی چارج ، آنسو گیس یا جلاو گھیراؤ کی نوبت آتی ہے تو بڑے سیاستدان نظربند ھو جاتے ہیں ، یا پھر جیل یاترا میں بی کلاس حاصل کر کے محفوظ ہو جاتے ہیں ۔

ڈگڈگی آ جاتی ہیے بچارے کارکنوں کے ہاتھ ، بالکل استرے کی طرح ، سوشل میڈیا نے لیڈروں کو اور محفوظ کر دیا ھیے خود اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں ، اور دوسروں کے بچوں کو ورغلاتے اور اکساتے ہیں ۔کہ جلوس کے لیے نکلو ،اور پھربھوک ،گرمی ،سردی ، لاٹھی چارج ، آنسو گیسں اور اگر پکڑدھکڑ میں کارکنں آگیا تو مارکٹائی ،تھانہ ، حوالات کچہری اور جیل کی ہوا ۔

اگر آنکھ ، ٹانگ ٹوٹ پھوٹ گئی تو پھر ماں باپ پر بوجھ بن کر زندگی گزارنا پڑے گی ۔ اور ہاں جن کے لیے یہ سب کیا ہوتا ہے وہ ایک دفعہ تو ضرور خیریت کی خبر لیتے ہیں ، پھر اس کے بعد پوچھنے کے بھی روادار نہیں رہتے ۔

پھر یوں ہوا کہ نوجوانوں نے اشتعال میں آ کر آگ لگا دی ، بورڈ پر لاٹھیاں برسا دیں ، نشانْ حیدر پانے والے شہدا کے مجسموں کو گرا کر ڈنڈے برسائے ، اور اس سب پر شرمندہ ہونے کی بجائے پوری ڈھٹائی سے ڈٹ کر کھڑے ہیں ۔ اور بضد ہیں کہ ہم نہیں تھے ۔

ریڈیو پاکستان پشاور کی ٹوٹ پھوٹ اور اس کی عمارت سے اٹھتی آگ اور دھواں دیکھ کر ھم چشم تصور سے اس کے گیٹ کے سامنے جا کھڑے ہو؟ ۔ ھم افسردہ اور نم آنکھوں کے ساتھ خاموش کھڑے تھے کہ چند لمحوں بعد یوں محسوس ہوا ،جیسے ہمارے دائیں بائیں بھی کوئی موجود ہے ۔

ذرا سا آگے بڑھ کے جو دیکھا تو بہت ہی افسردہ اور نمناک احمد ندیم قاسمی کی روح نظر آئی ، کہ 14اگست 1947 کو ان کے لکھے نغمے کے بعد خصوصی نشریات کا اختتام ہوا تھا۔

قریب ہی مجھے آفتاب احمد بسمل کی روح پریشان سی نظر آئی ،کہ جنہوں نے قیام پاکستان کا اعلان اردو میں کیا تھا۔ عبداللہ جان مغموم کا افسردہ چہرہ نظر آیا جنہوں نے پشاور ریڈیو کی اس عمارت میں قیام پاکستان کا اعلان پشتو میں کیا تھا ، ذرا سا ہٹ کے دیکھا تو قاری فدا محمد کی روح حیران حیران ٹوٹی پھوٹی عمارت کے اٹھتے دھوئیں کو دیکھ رہی تھی ، کیوں کہ انہوں نے 14 اگست 1947 کو پشاور ریڈیو کی عمارت میں تلاوت سے وطن عزیز کی نئی صبح کا آغاز کیا تھا۔

1930میں تعمیر کی گئی تھی اس عمارت سے کیا کیا یادیں وابستہ ہیں جو آگ نے جلا ڈالے ، بے تحاشا ایسی آوازیں محفوظ ہوں گی جو ریکارڈ روم کی لائبریریوں میں اب تک محفوظ پڑی ہوں گی ، آگ کے دھوئیں نے پرانی ٹیپ اور نئی سی ڈیز اور نادر تصویریں سب جلا کر خاکستر کر دیں ۔

آگ سے اٹھتا دھواں عالم بالا تک جا پہنچا ، دھویں میں جلے اسکرپٹ کی نرمی، گرمی ، محبت اور تلخی کی چبھن محسوس ھوئی تو حمزہ خان شنواری ، سمندر خان سمندر، طہہ خان ، حاطر غزنوی ، احمد فراز ، روشن نگینوی ،مسعود انور شفقعی ،مظہر گیلانی ، مختار علی نیر ،آغا سرور ، فقیر حسین فقیر کی روحیں جلتے ریڈیو کو دیکھنے آ گئی تھیں ۔ سب افسردہ ،پریشان اور دکھی تھیں۔

پھر راکھ راکھ ھوتے ریڈیو کا پرسہ محترم ناصر علی سید کو فون کر کے دیا اور بہت دیر یادوں کے دریا سے محبت کے بوکے بھرتے اور سیراب ھوتے رہیے ، بات پشاور ریڈیو کی گو اور استاد بشیر کا زکر نہ آ یہ کیسے ھو سکتا ھیے ۔ پشاور ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر اعجاز خان صاحب سے بھی بات کرنے کی بہت کوشش کی مگر انھوں نے لفٹ نہیں کرائی تو ھم بھی سر جھٹک دیا ۔

جو پرسہ نہیں لینا چاہتے انھیں بار بار فون کیوں کیا جا رھا ھیے ۔مجھے 1977 وہ کی ایک دوپہر یاد ہیے جب میں گورنمنٹ کالج ہشتنگری سے نکلا تو میری منزل ریڈیو پاکستان پشاور تھی ۔زندگی کا پہلا پروگرام ” مجاھد ” لکھا اور پھر ریڈیو کے لیے لکھنے کا چسکا پڑا کہ آج تک جاری ھیے ۔

مجاھد پروگرام نشر ہوگیا پچاس روپے کا چیک ملا تھا میرے پروفیسر مختار صاحب گورا بازار سے زرا آگے تختو جماعت کے پیچھے بینک سے اکاؤنٹ کے لئے فارم لانے کو کہا ، اور متعارف کنندہ میں اپنا نام اور اپنا اکاؤنٹ نمبر لکھا اور مبلغ دس روپے بھی مجھے دیے کہ اب واپس اسی بینک میں چلا جاؤں اور جا کے دس روپے سے اکاؤنٹ کھول لو اور پچاس روپے کا چیک جمع کرا دوں ، میں نے وہی سب کچھ کیا ۔

چھوٹی سی برانچ میں بیٹھے تین افراد نے میرا اکاؤنٹ کھولنا شروع کیا مجھ سے پوچھا تو میں نے بتایا کہ یہ پچاس روپے کا چیک مجھے ریڈیو سے ملا ہے وہ تینوں مجھ سے ملے خوش ہوئے ، اور میرے اندر ایک تفاخر نے جنم لیا کہ ریڈیو میں لکھنے والے کو تو بڑی عزت سے دیکھا جاتا ھیے ۔ اور پھر کچھ دن کے بعد ہمارے کالج پرنسپل اشرف بخاری نے مجھے روک لیا ، اور پوچھا اچھا تو اب آپ ریڈیو پر بھی لکھیں گے، ھم نے فوری طور پرکہا تھا "؛سر آج معاف کردیں آئندہ کبھی نہیں لکھوں گا ” سپاٹ لہجے میں فرمایا پڑھائی پر بھی دھیان دینا ھیے ، لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ !!!!
ابھی دکھ کے آنسو صاف کیے ھی تھے کہ سامنے ایم ایم عالم کی رو ح آ گئی وہ مجھے قہر آلود نظروں دیکھ رہیے تھے ۔ بس یہی تھی تمہاری جہاز کے ساتھ محبت ارے یہ تو فخر تھا ، تمہارے دشمن کو صفحہ ہستی سے مٹایا تھا ، اور آج تم نے محبت، انا، خودداری کی اس علامت کو جلا کر راکھ کر دیا ۔

میں وہاں سے واپس پلٹتا ہوں تو آنکھوں سے دوبارہ آنسو نکلنے لگتے ہیں بہت سی لڑکیاں روتی سستی نظر آرہی ہیں ، بہت سے بوڑھے بزرگ حیران پریشان نظر آرہے ہیں ، کہ وہ دن میں آزادی کے ساتھ میٹرو بس میں بیٹھ کے راولپنڈی سے اسلام آباد میں نہایت مختصر سر پیسوں میں سفر کرتے ہیں ان کے سٹیشن جلا کے رکھ کر دیے ، یہ کہاں کا انصاف ہے ، یہ کیسا انصاف ہے ۔

عجیب دوراہے پر مری سوچ کھڑی ہے میں افسردہ ہوں ، پریشان ہوں کسی کو سمجھ آئے تو مجھے ضرور بتائیے یہ کیسا انصاف ہے ، کہ اپنے ہی گھر کو آگ لگائے ، چلے جا رہے ہیں یہ ملک ہمارا ہے ، یہ عمارتیں ہماری پہچان ہے ، یہ سڑکوں پر بھرتی چلتی پھرتی گاڑیاں ہمارے اداروں کی ہیں ۔رونا تو اس بات کا بھی ہے کہ کوئی مانگنے کو تیار نہیں کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے یا ہم نے غلط کیا ہے کیا کیا جائے آئے ، افسردگی ہے اور لوگوں کی سوچ پر ماتم کناں ہوں ، کہ مظاہرہ ہو ،جلوس ھو اپنی ہی چیزوں کو آگ لگا کر جشن مناتے ہیں ، قلم ایسے لوگوں کے لیے بہت کچھ نازیبا کہنا چاہتا ہے ، لیکن اخلاق کی پامالی اور تربیت ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتی ۔

(خالد مجید سینئر صحافی ،رائٹر اور شاعر ہیں جو بیک وقت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کےلئے
کام کرتے ہیں ۔ قارئین ان کوفیڈ بیک دے سکتے ہیں khalidmajeed925@gmail.com)

ہمارا نوحہ اور روحوں کا سوگ

Comments are closed.