ایبٹ آباد کا خوبصورت گاوں ،جونیاں


قمرزمان تنولی

ْجونیاں خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد کاایک خوبصورت گاوں ہے ، یہ گاوں دو اضلاع مانسہرہ اور ایبٹ آباد کے سنگم پر واقعہ ہے۔ یہ دلکش وادی 180,037کنال علاقے پر محیط ہے جو کہ تناول کے ان بڑے مضافات میں شامل ہے جن کا شمار رقبے کے اعتبارسے بڑے مضافات میں ہوتاہے ۔گاوں جونیا ں سطح سمندرسے 849میٹر بلندی پر واقع ہے ۔جونیاں گاو ں ضلع مانسہرہ کی شمال مشرقی حد کی طرف ضلع ایبٹ آباد کاحصہ ہے،اس گاوں میں تقریباً تمام ہی آبادی تنولی قبیلے سے تعلق رکھتی ہے۔تاہم اگر مختلف اقوام کا تناسب دیکھا جائے تو گاوں جونیا ں میں تنولی قبیلے کی آبادی85فیصد، اعوان 8فیصد، سلیمانی 6فیصد اور ترک ایک فیصد ہیں۔

جونیاں گاو کی آبادی 5ہزار نفوس سے زیادہ ہے جب کہ خواندگی کی شرح 99فیصد ہے، اس گاوں میں 7افراد پی ایچ ڈی، 10ایم بی بی ایس،17انجینئرز،اکاؤنٹنٹ اور پوسٹ گریجویٹس ہیں۔جونیاں کے زیادہ تر لوگ محکمہ تعلیم سے وابستہ ہیں اور مجموعی طور پر 60خواتین اور مرد اساتذہ بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں بلکہ اس گاوں کو اساتذہ کاگاوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا،ان اساتذہ میں زیادہ تر ایس ای ٹی، ایس ایس ٹی ، ہیڈ ماسٹر،پروفیسر اور مختلف سکولوں کے پرنسپلزہیں،جونیاں کے قریب واقعہ گاوں کانام چمٹی ہے بلکہ یوں ہے کہ دونوں مضافات کانام عموماً لوگ ایک ساتھ ہی پکارتے ہیں اور جب بھی کسی جونیاں سے وابستہ کسی بات کا ذکر ہو تو کہا جاتاہے جونیاں چمٹی۔

جونیاں کے قریب واقعہ دیگر مضافات میں کوٹلہ، جوکاں، کمیلہ، چکڑ بائیاں کلاں، خیر پور، نمشیرہ، بیری، کھلا بٹ، کنگر بالا، کنگر پائیں ، احمد آباد ، کوٹ اور رتیاں واقعہ ہیں، ان تمام مضافات کا جونیاں سے فاصلہ دو کلو میٹر یا اس سے کم بنتا ہے،جونیاں تاریخی اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے ، بتایا جاتاہے کہ ماضی میں جب ریاست امب دربند قائم تھی تو جونیاں چمٹی کو خاص اہمیت حاصل تھی ،خاص کر جب شیروان کو انگریز اپنے دور میں کلید ی قصبہ کے طورپر رہائش اور آمدو رفت کیلئے استعمال کرتے رہے تو ان دنوں مانسہرہ کیلئے تجارتی قافلوں کی گزر گاہ بھی یہی علاقہ تھا۔

جونیاں یوں تو اپنی خوبصورتی کیلئے مشہور ہے لیکن کچھ فاصلے سے گزرتا دریائے سرن اس کی دلکشی میں اضافہ کرتاہے، گاوں کی عید گاہ بہت پر کشش ہے ، پہلی بار اس علاقے میں آنے والے جونیاں کی عید گاہ اور سکول کو دیکھے بنا نہیں رہ سکتے۔اکثر سیاح جب اس علاقے کا رخ کرتے ہیں تو سلفی کے اس نئے دور میں وہ عیدگاہ میں موجودگی کو اپنی یاد کاحصہ ضرور بناتے ہیں۔چندسال پہلے جونیاں گاوں کی سڑک کی دوبارہ پختگی نے اہلیان جونیاں چمٹی کی آمدورفت میں جہاں آسانی پیدا کی ہے وہاں اس سڑک نے علاقے کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کیاہے،گاوں میں نوجوان جو پہلے پہاڑی ایریا کے مختلف کھیتوں کو کرکٹ کا میدان بناتے تھے اب وہ اس سڑک میں جگہ جگہ وکٹیں کھڑی کرکے اپنے شوق کا سامان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

جونیاں چمٹی اگر چہ ضلع ایبٹ آباد میں واقعہ ہیں لیکن ان کی آمدو رفت کاانحصار ضلع مانسہرہ پر ہی ہے بیشتر آبادی اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے اور تجارتی اور ملازمت کیلئے ضلع مانسہرہ کا ہی رخ کرتے ہیں ، ایبٹ آبادجانے کیلئے بھی مانسہرہ ہی کا راستہ اختیار کیا جاتاہے کیونکہ شیروان کی سمت دشوار گزار اور فاصلہ بھی زیادہ بن جاتاہے اس لئے مقامی لوگ نجی سکولوں کیلئے بھی مانسہرہ شہر کاانتخاب کرتے ہیں،
کبھی کبھی ہزارہ ڈویژن کے دیگر مضافات کی طرح جونیاں کے لوگ بھی زیادہ تر انحصار کھیتی باڑی پر کرتے تھے اور اپنی اگائی گئی فصلوں سے سب کا گزر بسر ہو جاتاتھا لیکن روزگار کے مواقعے پیدا ہونے کے بعد نئی نسل میں کھیتی باڑی اور مویشی پالنے کارجحان کم ہو گیاہے اب اکثریت لوگ اپنی اگائی فصلوں سے گھر کی ضرورت پوری نہیں کرپاتے اور آٹا خرید کر کھاتے ہیں۔

زمانہ قدیم میں یہاں مقامی پھلوں کو بھی بہت اہمیت حاصل تھی ، رمبل، کڑوڑے، گراچھے، ہاڑیاں، آلوچے ، سیب ،تعمڑ، پھاگاں ،توت اوربٹنگ مقامی سطح پر پیدا ہوتے اور لوگ شوق سے کھاتے تھے لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ جہاں تعلیم عام ہوئی ہے وہاں مقامی چیزوں کی اہمیت کم ہو گئی ہے،ہزارہ ڈویژن کے باقی علاقوں کی طرح یہاں بھی مقامی روایات اور ثقافت کو بہت پذیرائی ملتی ہے،ڈھول کی تھاپ کے آگے گھاس کاٹنے والے لوگ ، یعنی حشر، شادیوں میں ڈھول باجے(مراثی،سانگی)نوجوانوں کا شادی ماتم میں اکٹھے ہو کر درخت کاٹنے ، یا کچے مکانوں کے اوپر لکڑیاں ڈالتے وقت نوجوانوں کا جمع ہو کر کام کرنا۔لیکن بدقسمتی سے اب موبائل اور نیٹ نے نوجوانوں سے ان اجتماعات کی رونقیں بھی چھین لی ہیں۔

(جونیاں کے تاریخی حوالے ، مزید معلومات، اہم شخصیات وغیر ہ کے سلسلہ میں اس تحریر میں ترمیم کی گنجائش رکھی گئی ہے اور جونہی اس میں کسی نے تصیح کے ساتھ اضافہ کرنا ہوتو وہ رائٹر قمرزمان تنولی سے رابطہ کرسکتاہے، تحریر میں ترمیم یا اضافہ کردیا جائے گا)

Comments are closed.