یہ انصاف ہے یا غصہ

شہر یار خان

یہ کیا ہو رہا ہے؟۔ سمجھ آتے ہوئے بھی کچھ سمجھ نہیں آتی، ایسا بھی ہو سکتا ہے کیا؟۔عدالت منصفی کے لیے بنی ہے یا غصہ نکالنے کے لیے؟۔کیا کوئی منصف غصہ میں فیصلہ دے سکتا ہے؟۔

اگر کسی مہذب ملک میں پوچھیں تو جواب ملے گا نہیں لیکن یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان۔۔ یہاں ایسے فیصلوں کی لمبی تاریخ ہے، جب بھی ایسے کسی عدالتی فیصلہ یا ججوں کے رویہ پر بات کرتا ہوں تو کئی دوست ناراض ہو جاتے ہیں۔
اپنی فیس بک وال پر عمران خان ، چیف جسٹس ثاقب نثار یا آرمی چیف سے محبت اور نواز شریف سے نفرت کا اظہار کرنے والے کئی صحافی دوست مجھے جانبدار کہتے ہیں

کہتے ہیں کہ میں ن لیگی بنتا جا رہا ہوں ، کہتے ہیں میں صحافی ہوں اس لیے مجھے غیر جانبدار ہونا چاہئے۔ کہتے ہیں مجھے کسی ایک کی طرفداری نہیں کرنی چاہئے۔

میں انہیں لاکھ بتاؤں کہ ان تحریروں کا یا میری فیس بک پوسٹس کا میری صحافت سے کوئی تعلق نہیں یہ میری ذاتی رائے ہے جس کا میں اظہار کرتا ہوں، اپنی خبر میں کبھی بھی جانبداری نہیں برتتا۔
میں ان کی توجہ اس جانب بھی دلاتا ہوں جہاں میرے وہ صحافی دوست اپنی ڈی پی میں نواز شریف سے نفرت اور عمران خان اور چیف جسٹس سے محبت کا اظہار کرتے تھکتے نہیں ہیں لیکن وہ اس بات پر قطعی شرمندہ نہیں ہوتے۔

غالباً ان دوستوں کے لیے غیر جانبداری صرف نواز شریف کی برائی کرنا ہے۔ میں نواز شریف کا حمایتی کبھی بھی نہیں رہا، میری تحریریں میرے الفاظ گواہ ہیں، مجھے جاننے والے جانتے ہیں ہمیشہ جمہوریت کی خاطر آواز بلند کی اور اس وقت نواز شریف ہمارا نشانہ ہوتے تھے۔
اب جب مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف جمہوریت، ووٹ اور عوام کی عزت کی خاطر لڑائی کر رہا ہے تو میں کس کا ساتھ دوں؟۔ جمہوریت اور بیلٹ کا ۔۔۔ یا پھر ایسی تبدیلی کا جس کا راستہ ایک بار پھر اسی گلی سے آتا ہے جہاں سے تمام سیاستدان گزر کر آتے رہے ہیں؟۔

میں انہیں یہ بھی بتاتا ہوں کہ جھوٹ اور سچ، اچھائی اور برائی۔۔ جہاں یہ مقابلہ ہو مجھ پہ یہ واجب نہیں کہ میں غیرجانبدار رہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم صحافی کبھی بھی مارشل لا کے خلاف جدوجہد نہ کرتے، ہم کبھی آمریت کے خلاف لڑائی لڑتے ہوئے ڈنڈے نہ کھاتے، تھانینہ جاتے۔

منہاج برنا، نثار عثمانی، آئی ایچ راشد، سعید احمد، عبدالحمید چھاپرا ، احفاظ الرحمن جیسے صحافتی لیڈرز کبھی جیلوں میں نہ جاتے بلکہ غیر جانبدار رہتے ہوئے آرام سے اپنی نوکریاں کرتے ، نثار عثمانی کی اہلیہ اپنے شوہر کی جیل سے واپسی کے انتظار میں اپنی بینائی نہ کھوتیں۔

پی سی او چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے صحافیوں پر پابندی کے فیصلہ کو ماننے سے عدالت میں ہی کھڑے کھڑے صحافی انکار نہ کرتے اور ڈوگر اپنا فیصلہ واپس نہ لیتا۔

مشرف کی ایمرجینسی پلس کے خلاف پی ایف یو جے جدوجہد کا آغاز نہ کرتی تو شاید وہ دورآمریت مزید طول پکڑ جاتا۔یہ چند مثالیں ہیں ان دوستوں کے لیے جن کو لگتا ہے کہ عدالتی فیصلوں پر بات کرنا چوروں کی حمایت کرنا ہے۔ میں انہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو قاتل کہنے والے بھی آج بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل سمجھتے ہیں۔

گزشتہ چند روز سے جو کچھ عدالتوں میں ہو رہا ہے اس پہ غیر جانبدار رہناشاید مناسب نہیں ہو گا۔ اگر انصاف ہو رہا ہوتا تو اس کی وضاحتیں منصفوں کو سڑکوں پہ آ کر نہ دینا پڑتیں۔ علی احمد کرد جیسا وکیل راہنما عدالتی فیصلوں کے خلاف لڑائی کا آغاز کرنے کی بات نہ کرتا۔

علی احمد کرد کے اس اعلان سے یوں محسوس ہوا ہے جیسے عاصمہ جہانگیر مری نہیں، وہ زندہ ہے، اس کا فلسفہ زندہ ہے ، وہ کسی اعتزاز کی سینیٹ کی نشست اور پارٹی سیاست میں واپسی پر بکا نہیں۔ وہ کسی مصلحت کا شکار ہو کر کسی پراپرٹی مافیا کا آلہ کار نہیں بنا۔

جو لوگ نواز شریف کے خلاف آنے والے فیصلوں پر خوشی کا اظہار کرتے تھک نہیں رہے کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ نواز شریف کو سزا کرپشن پہ دی جا رہی ہے یا پھر سر جھکا کے حکومت کرنے سے انکار پہ نشانہ بنایا جا رہا ہے؟۔ کیا نواز شریف کو عدالت میں سسلین مافیا اور گاڈ فادر جیسے القابات سے نوازنا انصاف تھا؟۔
کیا سپریم کورٹ اصل کیس پر انکوائری کا حکم دے کر ایسے الزام میں نا اہل کر سکتی ہے جس کی پٹیشن میں استدعا ہی نہیں کی گئی تھی؟۔ کیا نااہلی کے قانون 62 ایف ون میں پائے جانے والے ابہام کو دور کرنے کے لیے معاملہ پارلیمنٹ کو بھیجا جانا ضروری نہیں تھا؟۔

کیا خواجہ سعد رفیق کو عدالت میں بلا کے اس کی تضحیک کرنا کسی جج کے شایان شان ہے؟۔ کیا خواجہ سعد رفیق کو یہ کہنا کہ لوہے کے چنے لے کر آئے ہیں ، کسی جج کے لیے مناسب ہے؟۔ خواجہ سعد رفیق نے جب کہا میں عدالت کے لیے جیل گیا ہوں اس پہ جج صاحب کا کہنا کہ دوبارہ جیل بھیجا جا سکتا ہے کیا یہ پہلے سے عدالت کا غصہ ظاہر نہیں کرتا؟۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ غصہ میں فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔۔ کہتے ہیں غزوہ خندق میں حضرت علی دشمن کی چھاتی پر سوار تھے اور قریب تھا کہ آپ اسے قتل کر دیتے، اس نے آپ کے منہ پر لعاب پھینک دیا، اللہ کے شیر کو غصہ آیا اور وہ دشمن کی چھاتی سے اتر آئے۔

کہا اگر میں اسے غصے میں قتل کرتا تو یہ اللہ کی راہ کے بجائے اپنی ذاتی تسکین کے لیے ہوتا۔ اس لیے اس وقت اس دشمن کو چھوڑ دیا تاہم بعد میں اسے قتل کیامگر اس کی لاش کی تذلیل نہیں کی اور اس کی زرہ بکتر نہیں اتاری۔

یعنی غصہ میں کسی صورت انصاف پہ مبنی فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے منصفین کے لیے واجب ہے وہ پہلے اپنے غصے پر قابو پائیں اور پھر انصاف کی کرسی پر براجمان ہوں۔ورنہ مجھ ایسے پاگل پوچھتے رہیں گے یہ انصاف ہے یا غصہ؟۔

Comments are closed.