کریڑ

محبوب الرحمان تنولی

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مانسہرہ لوہر تناول میں ضلع ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں جدا کرنے والی پٹی پر واقعہ ایک تاریخی گاوں کانام کریڑ ہے، اس کی آبادی 4 ہزار نفوس سے زائد ہے،جہا ں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد15 سو سے زیادہ ہے۔

جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے تو گاوں کریڑ کے مشرق میں یونین کونسل بحالی کا اہم گاوں بحالی، مغرب میں جنکیاری وبرٹ اور کھواڑی ،شمال میں موہائیاں اور جنوب میں بحالی کی داخلی چڑاچھ اور ایبٹ آباد کاگاوں سیال واقع ہیں۔

یہ عجب اتفاق ہے کہ کریڑ میں بسنے والے تمام لوگ تنولی قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل جب برطانوی راج تھا اس عرصہ میں یہاں ہندو اور سکھ بھی مقیم رہے۔ ان کی بعض یادگاریں اب بھی موجود ہیں۔

خاص کر کریڑ کے اہم محلہ نکہ میں زیر زمین کئی کھنڈرات سے پتہ چلتاہے کہ کریڑ کا گاوں پہلے نکہ ہی کے مقام پر آباد تھا۔۔ جو بعد میں شہر کے نام سے مشہور ہونے والی آباد ی میں منتقل ہو گیا۔گاوں کے  بزرگ لوگ اب بھی مختلف محلوں کی نشاندہی کرکے بتاتے ہیں کہ فلاں ہندو ، فلا ں کھتری وہا ں وہاں رہتے تھے۔

وہ مذاہب کے درمیان مثالی اہم آہنگی کی بھی مثالیں دیتے ہیں۔رنجیت سنگھ کے دور میں اور اس کے بعد کے زمانہ میں کئی اہم علاقائی جنگیں بھی اس علاقے میں لڑی گئیں۔ خاص کر جنگ منگلور جو کہ بہت مشہور جنگ ہے اور تاریخ کی کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ وہ کریڑ اور بالخصوص کریڑ کے علاقہ درمن اور ٹہکی کے علاقہ میں لڑی گئی۔۔

بدھ مت کی بھی موجودگی کے آثار ملتے ہیں۔ گندھارا تہذیب کا طرز تعمیر بھی کچھ پرانی عمارتوں سے نمایاں ہے۔ موضع کریڑ کے موضع کھواڑی کی طرف پہاڑی سلسلہ،، کوٹ،، پر اس دور کے ایک قلعہ کے کھنڈرات اب بھی موجود ہیں۔ پہاڑی کی چوٹی پر بنے اس قلعہ کے سولہ ستون اور لگ بھگ اتنے ہی کمرے اور راہداریاں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ کبھی یہ کوٹ بھی جنگجووں کا اہم مسکن تھا۔

تلواروں اور گھوڑوں کے زمانہ کی لڑائیوں کیلئے اس قلعہ کی جگہ کا اسی لیئے انتخاب کیاگیا ہوگا۔پہاڑکی چوٹی پر واقعہ یہ قلعہ لڑائی کیلئے بہت اہم
ہے اور اس کاایک ہی راستہ بنتاہے جو نیچے ڈھلوان میدان ہے۔ قیاس کیا جاتاہے اس وقت اس ڈھلوان کو گھوڑے باندھنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔کریڑ میں ان دنوں سڑک ، بجلی ، پانی اورٹیلی فون ایسی سہولیات موجود ہیں۔

script

اور راقم کو یہ لکھتے ہوئے زرا بھی عار نہیں کہ بجلی کی تنصیب میرے والد رفیق الرحمان (مرحوم ) کی ذاتی کوششوں سے ممکن ہوئی۔۔ اللہ پاک سب کے گھر روشن والے کی قبر کو روشن کرے۔ (امین)

کریڑ پہنچنے کیلئے ایبٹ آباد یا مانسہر ہ سے قلندر آباد پہنچ کر سجی کوٹ روڈ پر تقریباً سات کلو میٹر سفر کرنا پڑتاہے۔ جب کہ کھواڑی روڈ سے جنکیاری اور پھر جنکیاری سے کریڑ بھی آ سکتے ہیں۔ ایک راستہ مانسہرہ سے براستہ اوگر ا موئیاں کڑلال اور کریڑ بھی آتاہے۔ کریڑ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 21میں آتا ہے ۔جو تبدیل ہو کر اب این اے14ہو گیاہے۔

کریڑ پہلے یونین کونسل لساں ٹھکرال کاحصہ تھا نئی حلقہ بندی میں ایک بار پھر پرانی یونین کونسل بحالی میں شامل کرلیا گیاہے۔ کریڑ کی داخلیوں میں جوگی موہڑہ، درمن، موریاں اوربھگو شامل ہیں۔ کریڑ سے کئی اہم شخصیات نے کئی اہم عہدوں پر مختلف اداروں میں اہم خدمات انجام دیں اور وہ کئی شعبوں میں نمایاں رہے۔

کریڑ میں جن بڑی عمرکے لوگوں سے میری تاریخی حوالوں سے گفتگو ہوئی ان میں دریمان (مرحوم)خدابخش (مرحوم)رفیق الرحمان (مرحوم)یونس (مرحوم) اور کالا خان شامل ہیں۔ کالا خان حیات ہیں اور ان کی عمر 100سال یااس سے زیادہ ہے۔

بڑی عمر کے یہ لوگ جیتی جاگتی تاریخ ہوتے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ان سے وہ یاداشتیں اکٹھی نہیں کر پاتے اور وہ یاداشتیں بزرگوں کی موت کے ساتھ ختم ہو جاتیں ہیں۔کریڑ کے پہاڑی سلسلہ میں کوٹ اور ،، سربدی، کی چوٹیا ں شامل ہیں۔

یہاں سے ایبٹ آباد اور مانسہرہ کے شہر نظر آتے ہیں بلکہ تناول کا بڑا علاقہ نظر آتاہے۔۔ باقی دیہات کی طرح کریڑ میں بھی واٹر سپلائی سکیم بہت بعد میں آئی اس سے پہلے قدرتی چشمے (کھواور ناڑے) ہی پانی کے ذخائر تھے۔

کریڑ کے ، ، ترلے ناڑے ،، کے بارے میں بڑے لوگ بتاتے ہیں کہ پاکستان بننے سے پہلے جب کچھ گورے بحالی اور ملحقہ علاقوں میں بھی آتے جاتے تھے اور خود بحالی کے پڑھے لکھے ترک قوم کے لوگ اپنے گھوڑوں کو پانی پلانے اور نہلانے کیلئے ترلے ناڑے پر لایا کرتے تھے۔

بعد میں جب ایک دور میں پانی کی قلت ہوئی تو گاوں والوں نے عورتوں کی آمدو رفت کے باعث دوسرے گاوں سے آنے والوں کو منع کردیا تھا۔

موضع کریڑ میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو بھارت کے ساتھ1965اور1971کی جنگوں میں شریک رہے۔ ۔کریڑ کی اہم شخصیات کا ذکر پھر کسی اور مضمون میں کریں گے۔ کریڑ میں گندم اور مکئی کی فصلیں ہر سال کاشت ہوتی ہیں۔زیادہ تر لوگ ملازمت پیشہ ہیں۔

زمینداری تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ جن خاندانوں کے پاس زیادہ زمینیں ہیں اب وہ بھی آٹا خرید کر کھاتے ہیں۔۔ پہاڑوں پر کبھی جو گھاس کاٹنے (سرہڈ) کی حشر۔۔ مراثیوں کے ساتھ سرہڈ کاٹنے کے مقابلے ہوتے تھے وہ روائیت بھی دم توڑتی جارہی ہے۔

کریڑ اور ملحقہ علاقوں میں کبھی کبڈی کا کھیل روائت تھا اور بڑے بزرگ بتاتے ہیں کہ وہ اپنے زمانے میں بہت دور دور تک کبڈی کھیلتے تھے ۔ اب گزشتہ کئی سالوں سے مانسہرہ کے ظفر گراونڈ میں کبڈی کے جو سالانہ مقابلے ہوتے تھے وہ بھی ختم ہو چکے ہیں بلکہ ظفر گراونڈ ہی ختم ہو چکا اس کی جگہ کنگ عبداللہ اسپتال بن گیا ہے۔

کرکٹ شغل کی حد تک کھیلا جاتاہے ۔۔کر یڑ میں ہاکی کا کھیل کچھ عرصہ کھیلا گیا اب وہ بھی نہیں رہا۔۔ کریڑ کے ایک کٹھہ کے ایک پہاڑی سلسلہ میں جنگلی کبوتر بہت کثیر تعداد میں پائے جاتے تھے۔ فالج کے علاج والے یہاں سے شکار کرکے ان کی یخنی مریضوں کو کھلاتے تھے۔ ایک بھونچال نے اس پہاڑی سلسلہ کو بھی بہت نقصان پہنچایا۔

کریڑ میں 60سال پرانا لڑکوں کا ہائی سکول اور لڑکیوں کیلئے مڈل سکول ہے۔واٹر سپلائی سکیم ۔ پکی سڑک، بجلی ۔ اور دیگر بنیادی سہولیات بھی موجود ہیں۔۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کریڑ سے 3کونسلرز منتخب ہوئے جو اپنی صلاحیت کے مطابق کام کررہے ہیں۔

کریڑ میں خوبانی، آلوچا، سیب ،مالٹا ،آلوبخارا ، اور انجیل قدرتی پھل ہیں۔۔ یہ پھل محدود پیمانے پر ہیں مگر اپنے موسم میں کہیں نہ کہیں دستیاب ضرور ہوتے ہیں۔

script

Comments are closed.