فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف کیس،وفاقی حکومت کا فل کورٹ بنچ تشکیل دینے کا مطالبہ

45 / 100

فائل:فوٹو

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف کیس،وفاقی حکومت نے فل کورٹ بنچ تشکیل دینے کا مطالبہ کردیا۔

فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف کیس ،وفاقی حکومت نے اٹارنی جنرل عثمان منصورکے زریعے سپریم کورٹ میں 31صفحات پر مشتمل تحریری جواب جمع کرا دیا۔

تحریری جواب میں وفاقی حکومت نے موقف اختیار کیا کہ نو مئی کو فوجی املاک و تنصیبات کو منظم انداز میں ہدف بنایا گیا، فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے، فوجی عدالتوں کیخلاف سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواستیں قابل سماعت ہی نہیں ہیں۔

درخواست گزاران نے ہائیکورٹس کے بجائے براہ راست سپریم کورٹ سے رجوع کیا،آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ آئین پاکستان سے پہلے سے موجود ہیں جنہیں آج تک چیلنج نہیں کیا گیا،آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اٹھائے گئے تمام اقدامات قانون کے مطابق درست ہیں،سپریم کورٹ براہِ راست اس کیس کو نہ سنے،اگر سپریم کورٹ نے درخواستیں خارج کردیں تو متاثرہ فریقین کا ہائیکورٹ میں حق متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔پنجاب الیکشن کیس میں جسٹس یحییٰ آفریدی اس معاملے پر اپنی رائے دے چکے ہیں.وفاقی حکومت نے ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی استدعا کردی.۔

وفاقی حکومت نے مزید کہا کہ فوجی عدالتوں کے خلاف کیس فل کورٹ کو سننا چاہیے،اس کیس کی سماعت کرنیچ والے جج جسٹس یحیٰی آفریدی بھی فل کورٹ تشکیل دینے کی رائے چکے ہیں.وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے تمام درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کردی۔

درخواستوں کے اندر انتہائی اہم حساس اور ملکی وقار کے معاملہ عدالت کے سامنے لایا گیا ہے، فوجی ودفاع تنصیبات پر حملہ براہ راست نیشنل سیکورٹی کا معاملہ ہے، ائینی فریم ورک فوجی عمارتوں پر حملوں کرنے والوں کو فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی اجازت دیتا ہے۔

شکیل آفریدی اور کلبھوشن یادیو کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ غیر ملکی عناصر لگاتار فوجی و نیشنل سیکورٹی کو کمزور کرنے کاکام کر رہے ہیں، تمام گزارشات کے تناظر میں 9 مئی کے افراد کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل مناسب اور اہم اقدام ہے۔

ملٹری املاک پر حملوں کا مقصد ملکی سیکورٹی اور فوج کو کمزور کرنا تھا،مختصر وقت میں ملک بھر میں ملٹری املاک کونشانہ بنانا منظم منصوبہ کا ثبوت ہے،کور کمانڈر ہاوس، جی ایچ کیو، پی اے ایف بیس کو ایک وقت ساڑھے پانچ بجے حملہ کیا گیا،پنجاب میں تشدد کے 62 واقعات میں 250 افراد زخمی ہوئے،فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستیں ناقابل سماعت ہیں،ملٹری املاک پر حملوں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہونا چاہئے۔

Comments are closed.