مطیع اللہ جان کا کورٹ مارشل
سجاد اظہر
مطیع اللہ جان سے شناسائی لگ بھگ تین دہائیوں پرانی ہے اس دوران میں نے انہیں اسلام آباد کے صحافیوں میں بہت وکھری ٹائپ صحافی پایا. ابتدا میں سنتے تھے کہ ان کے باپ کرنل تھے اور بیٹے کو بھی کاکول بھیج دیا مگر بیٹا ذرا وکھری ٹائپ کا تھا سوال بہت کرتا تھا.
شکر ہے کہ کاکول والوں نے ان سے جلد جان چھڑوا لی وگرنہ آج وہ لیفٹیننٹ جنرل ہوتے اور کسی ناکام بغاوت میں مطیع اللہ جان کا کورٹ مارشل ہو چکا ہوتا. صحافت میں بھی وہ باغی ہی ہیں انہوں نے ڈان نیوز پر صحافیوں کا اپنا ہی گریبان چاک کر دیا تھا اور پھر ایسے بے باک ہوئے کہ جو ملا اسے چاک چاک کر دیا.
جہاں جج کا قلم کلاشنکوف بن جاتا ہے وہاں مطیع اللہ جان ایسے سر پھروں کے کیمرے ہی جنگی وقائع نگار ٹھہرتے ہیں. سپریم کورٹ کی راہداریوں سے پارلیمنٹ کی گیلریوں تک ان کے سوالات کی دھاک بیٹھ چکی ہے.
مجھے اگرچہ ہمیشہ اس طرز صحافت سے اختلاف رہتا ہے کیونکہ پاکستانی صحافت سپاٹ رپورٹنگ سے آگے نہیں بڑھ رہی. مجھے دکھ ہوتا ہے جب میں مطیع اللہ جان، اعزاز سید اور عمر چیمہ کو روزانہ کی خبروں کے جبر میں دیکھتا ہوں.
حالانکہ یہ وہ اثاثہ تھے جنہیں تحقیقاتی صحافت میں ہوشربا کتابیں لکھنا تھیں اور ایسے ایسے سکینڈل بے نقاب کرنا تھے کہ ایوان لرز کے رہ جاتے. طاقت کے ایوانوں میں جو کچھ ظاہری ہو رہا ہے درون پردہ اس سے کہیں زیادہ ہے. عموماً جو کچھ نظر آتا ہے ویسا نہیں ہوتا. مگر ہمارے دوست اس لمحاتی بریکنگ نیوز کے چکر میں بریک ہو رہے ہیں.
کچھ روٹی رزق کا بھی معاملہ ایسا ہے کہ ہر بندہ صبح شام میں تمام ہو رہا ہے. یوٹیوب تو گویا کریانے کی دوکان ہے جو مال بکتا ہے صحافی وہی بیچنے پر مجبور ہیں. پاپولر نریٹو کیسے بنتا ہے یہ اب باقاعدہ ایک سائنس ہے جس نے پولیٹیکل سائنس کے پراپیگنڈے کی ٹرم سے جنم لیا ہے
اب یہ خود اتنی بڑی سائنس بن چکی ہے کہ باقی اطلاعات اور سیاسیات کے علوم اس کی ذیلی شاخیں بنتے جا رہے ہیں. مغرب جہاں ذاتی حقوق کی دیوار اتنی بلند ہے کہ وہاں ریاستوں کو آزاد آوازوں کا گلہ دبانا نہیں پڑتا. مگر پاکستان جیسے ممالک جہاں ذاتیات نام کی کوئی چیز موجود نہیں.
جس کا جب دل کرے کسی کی ذاتیات کی ایسی تیسی کر دے. ریاست جب یہ سب کچھ اپنی چھتری تلے کروائے تو وہ صحافی اس کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں لیکن جب اس کی چھتری کے بغیر ایسا ہو رہا ہو تو پھر وہ آنکھ کا کانٹا ہوتے ہیں.
جنہیں یا تو حامد میر اور ابصار عالم کی طرح راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر وہ بچ نکلیں تو بغاوت کے مقدمات بھگتتے ہیں.
مطیع اللہ پر بغاوت کا الزام لگتا تو اچنبھے کی بات بالکل بھی نہیں تھی مگر اس پر تو نشئی کا الزام بھی لگا دیا گیا ہے. یہ واقعی مضحکہ خیز ہے. اور بالکل اسی طرح ہے کہ اگر بات مطیع اللہ جان کے نشے تک ہی پہنچ گئی ہے تو پھر بہتر ہے ہٹلر سے صلح کر لیں.
مجھے ذاتی طور پر مطیع اللہ جان کے اس انٹرویو سے شدید اختلاف ہے. کسی صحافی کو حساس ترین معاملوں میں بہت زیادہ حساس ہونا چاہیے اور وہ انٹرویو جو بالکل بیس لیس تھا اسے ایک ذمہ دار ترین صحافی کے چینل سے آن ائیر نہیں ہونا چاہیے تھا.
مگر یوٹیوب نے ورکنگ جرنلسٹوں کو بھی کرائسز ٹرن اوور میں دھکیل کر رکھ دیا ہے.اس سب کے باوجود مطیع اللہ جان ہم سب کی جان ہے شاید اسی کے بارے میں بیدل حیدری نے کہا تھا.
کہیں انتہا کی ملامتیں کہیں پتھروں سے اٹی چھتیں
ترے شہر میں مرے بعد اب کوئی سر پھرا نہیں آئے گا
یہ سر پھرے وکیلوں میں ہوں تو عاصمہ جہانگیر ہوتے ہیں اور صحافت میں ہوں تو مطیع اللہ جان ہوتے ہیں. یہ ہم سب کی جان ہوتے ہیں
#مطیع_اللہ_جان
(سینئر صحافی سجاد اظہر کی فیس بک وال سے کاپی پیسٹ)
Comments are closed.