27ویں آئینی ترمیم کی بازگشت
حنیف صابر
دوہفتے ہونے کو ہیں سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز پر 27 ویں آئینی ترمیم کی آمد زیر بحث ہے۔ آئینی ترمیم کی خبروں کی تردید بھی بڑی شدو مدد کے ساتھ کی جا رہی ہے۔
ہم جب نئے نئے شعبہ صحافت میں وارد ہوئے تو سینیئرز اور استاد صحافی بڑے وثوق کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ جس خبر کی تردید ہو گئی اس میں کچھ نہ کچھ ضرور سچائی ہوتی ہے۔
کارزار صحافت میں گزارے 35 برسوں میں ہم نے بھی بارہا دیکھا کہ جن خبروں اور باتوں کی تردید ہوتی رہی وہی بعد میں سچ ثابت ہوئیں۔ جس کی ایک مثال مائنس بینظیر اور مائنس نواز شریف ہے اور مائنس عمران نوشتہ دیوار ہے۔
ہفتہ 16 اگست کو کراچی میں وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت (ایف پی سی سی آئی) میں برسر اقتدار یونائیٹد بزنس گروپ کے سرپرست اعلیٰ ایم ایم تنویر نے، جو سابق تاجر رہنما ایس ایم تنویر کے صاحبزادے ہیں اور آخری نگران سیٹ اپ میں پنجاب کابینہ میں وزیر بھی رہے، ایک پریس کانفرنس کی۔
پریس کانفرنس میں ان کے ہمراہ ایف پی سی سی آئی کے صدر عاطف اکرام شیخ، میاں زاہد حسین اور احمد چنائے بھی موجود تھے۔ ایف پی سی سی آئی کے رہنمائوں کا پریس کانفرنس کرنا ایک معمول کی بات ہے کیوں کی ملکی معاشی و اقتصادی پالیسیوں اور حکومتی فیصلوں پر سب سے زیادہ ٹھوس اور کاروباری برادری کا نمائندہ موقف اسی کو مانا جاتا ہے۔
عمومی طور پر ان کی پریس کانفرنس بھی ایک پریس ریلیز کی صورت میں سامنے آتی ہے جسے اخبارات بزنس کے صفحہ یا کارنر میں اور ٹی وی چینلز بزنس نیوز میں جگہ دیتے ہیں۔ اگر کبھی ٹی وی چینلز ان کی پریس کانفرنس کی لائیو کوریج کریں بھی تو وہ ایک دو منٹ کے لیے ہوتی ہے تاکہ ان کی حاضری لگ جائے۔
مگر یہ پریس کانفرنس، جس کے لئے اتنی تمہید باندھی گئی ہے، کوئی عام پریس کانفرنس نہیں تھی، نہ موضوع کے اعتبار سے اور نہ ہی کوریج کے اعتبار سے، کیونکہ اسے تقریبا تمام بڑے نجی نیوز چینلز پر براہ راست دکھایا گیا اور وہ بھی پوری کی پوری پریس کانفرنس کو۔
یونائیٹد بزنس گروپ کے سرپرست اعلی ایس ایم تنویر اور ایف پی سی سی آئی کی قیادت کی پریس کانفرنس کا لب لباب یہ تھا کہ ایف پی سی سی آئی نئے صوبوں کے قیام اور نئے این ایف سی ایوارڈ کی حمایت کرتا ہے۔
ان کا استدلال تھا کہ جب پاکستان بنا تو موجودہ پاکستان (جو اس وقت مغربی پاکستان تھا) کی آبادی چار کروڑ تھی اور صوبوں کی تعداد بھی چار تھی۔ جبکہ اس وقت ملک کی آبادی 24 کروڑ ہے مگر صوبوں کی تعداد چار ہی ہے۔
اس لئے انتظامی بنیاد پر نئے صوبے بننے چاہئیں تاکہ انتظامی کنٹرول، گورننس اور پرفارمنس بہتر ہو سکے کیونکہ موجودہ گورننس اور انتظامی ڈھانچے کے ساتھ ملک کو بھارت کے مقابلے میں معاشی طور پر زیادہ مضبوط اور ترقی یافتہ نہیں بنایا جا سکتا۔
انہوں نے نئے این ایف سی ایوارڈ پر بھی بات کی اور کہا کہ نہ صرف نیا این ایف سی ایوارڈ آنا چاہیے بلکہ یہ نئے فارمولے کے تحت آنا چاہیے۔
اب چلتے ہیں دوسری طرف اور دیکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں کیا ہو رہا ہے۔ اپوزیشن کے ایم این اے ریاض فتیانہ نے ایوان میں آئینی ترمیم کا بل جمع کرایا جس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب کو تقسیم کرکے ایک نیا صوبہ ‘مغربی پنجاب’ بنایا جائے اور فیصل آباد اور ساہیوال ڈویژنوں کو صوبہ ‘مغربی پنجاب میں شامل کیا جائے۔
ریاض فتیانہ کے پیش کردہ بل پر کافی محنت کی گئی ہے اور انہوں نے قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کی نشتوں کی تقسیم و تعداد بھی اس بل میں دی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت نے اس بل کی مخالفت نہیں کی بلکہ اسے قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کے حوالے کر دیا گیا۔
ان ہی دنوں میں ایک اور آئینی ترمیم کا بل بھی قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے جسے میڈیا یا سوشل میڈیا پر زیادہ پذیرائی نہیں ملی مگر اپنے موضوع کے اعتبار سے اور موجودہ صورتحال میں وہ بل بھی انتہائی اہم نظر آتا ہے۔
یہ بل بھی اپوزیشن کے ارکان عامر ڈوگر، شبیر قریشی، اویس احمد جکھڑ اور خواجہ شیراز نے پیش کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 140 میں ترمیم کی جائے اور بلدیاتی یا مقامی حکومتوں کے سٹرکچر کو آئینی تحفظ دیا جائے، صوبوں کو زیادہ مالی اختیارات دیے جائیں.
صوبائی سطح پر بھی این ایف سی ایوارڈ کی طرز پر صوبائی فنانس کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ صوبوں کو جانے والے فنڈز اضلاع اور بلدیاتی اداروں کو منتقل ہو سکیں۔ بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مقامی ادارے مقامی حکومتوں کے حوالے کیے جائیں جن میں تعلیم صحت، صفائی وغیرہ اور بہت سے انتظامی امور بھی شامل ہیں۔
اس حصے میں برطانوی سٹی کائونسلز کے سسٹم اور اختیارات کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس بل کی تیاری میں بہت زیادہ محنت کی گئی ہے اور مالیاتی امور کو جس انداز سے ہینڈل کیا گیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ یہ بل بھی متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے۔
نئے صوبوں کے قیام کی بات نئی نہیں۔ صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کا بل قومی اسمبلی میںپیش بھی کیا جا چکا ہے اور وہ نا منظور نہیں ہوا بلکہ کہیں نہ کہیں اب بھی موجود ہے۔
محمد علی درانی اگرچہ اس وقت خاموش ہیں مگر چند سال پہلے وہ جنوبی پنجاب سے الگ صوبہ بہاولپور کے قیام کے حوالے سے کافی متحرک رہے ہیں۔ صوبہ ہزارہ تحریک تو کئی جانیں لے چکی ہے اور جب بھی نئے صوبوں کی بات ہوگی وہ تحریک سر اٹھائے گی۔
مولانا فضل الرحمن فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے مخالف رہے ہیں اور ان کا استدلال تھا کہ فاٹا کو الگ صوبہ بنایا جائے۔ صوبہ پوٹھوہار یا ساتھ والے اضلاع راولپنڈی، اٹک اوت چکوال کو شامل کرکے فیڈرل کیپیٹل کو صوبہ بنانے کے حوالے سے بھی بھی ماضی میں باتیں ہوتی رہی ہیں۔
خاص طور پر، پرویز مشرف دور میں جب شوکت عزیز وزیر اعظم تھے اس وقت اس طرح کے فارمولے زیر بحث رہے ہیں۔ بلوجستان رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا صوبہ ہے جس میں تین بڑی اقوام پشتون، بلوچ اور مکرانی تین الگ الگ اطراف میں آباد ہیں۔
سندھ کی تقسیم کا نام سنتے ہی پیپلز پارٹی کی قیادت کے چہرے سرخ ہو جاتے ہیں مگر کراچی کی سیاست کا محور کسی نہ کسی طور الگ صوبہ رہا ہے اور یہ استدلال بحرحال وزن رکھتا ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر کا نظم و نسق بہتر طور پر چلانے کے لئے ایک الگ انتظامی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔
گورننس، معاشی ترقی و خوشحالی، برآمدات کے فروغ، معدنی وسائل اور ملکی استحکام اور اسے ایشین ٹائیگر بنانے کے حوالے سے جو باتیں ایف پی سی سی آئی کی پریس کانفرنس میں کی گئیں تقریبا وہی باتیں اس وقت مختلف فورمز اور مختلف سطحوں پر زیر بحث ہیں۔
ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لئے فیلڈ مارشل نے جو معاشی سفارتکاری کی ہے اس میں بھی برآمدات کو بہتر بنانے، غیر ملکی سرمایہ کاری لانے اور معدنی وسائل کو ترقی دینے کو مرکزی حیثیت حاسل ہے اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کر چکے ہیں۔
ایف پی سی سی آئی کی لیڈر شپ کی پریس کانفرنس میں بھی معاشی ترقی کے حوالے سے یہی باتیں کی گئیں۔ اس پریس کانفرنس میں دو باتیں اضافی تھیں، نئے صوبوں کا قیام اور این ایف سی ایوارڈ۔ اور یہی وہ دو امور ہیں جن کے حوالے سے گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم کے بل پیش کیے گئے ہیں۔
اگر مقتدر حلقے یہی چاہتے ہیں تو اتفاق رائے قطعا مشکل نہیں ہو گا۔ آئینی ترمیم کروانے والوں نے تو اس وقت کروا لی تھی جب یہ ناممکن نظر آتا تھا۔
اس وقت تو پی ٹی آئی بطور پارٹی بہت متحرک اور مضبوط تھی مگر اب پی ٹی آئی کے پارلیمانی سسٹم کے اندر بطور پارٹی خاتمے اور خواتین نشتوں کی تقسیم کے بعد پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کی نااہلیوں نے نمبر گیم تبدیل کر دی ہے اور آئینی ترمیم کا کام بہت آسان ہو گیا ہے۔
دونوں بل اپوزیشن کی طرف سے آنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ پہلے ہی آن بورڈ ہیں۔ ویسے بھی بہت سی نااہلیوں کے درمیان شاہ محمود قریشی کی بریت اور اپوزیشن ارکان کا آن بورڈ ہونا بتاتا ہے کہ پی ٹی آئی کا نیا جنم ہونے کو ہے، باقی نظام تو پہلے سے ہائبریڈ ہے۔
ستائیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے باتوں کی تردید تو کی جا رہی ہے مگر قومی اسمبلی میں جو بل آئے ہیں ان کی سپورٹ ایف پی سی سی آئی کی طرف سے آنا اور کاروباری برادری کی سب سے بڑی تنظیم کی طرف سے اس کی حمایت کیا جانا بتاتا ہے کہ مرزا غالب نے درست ہی فرمایا تھا.
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
(سینئر صحافی حنیف صابر کی فیس بک وال سے کاپی کیا گیا ہے)
27ویں آئینی ترمیم کی بازگشت
Comments are closed.