نمبر گیم میں ناکامی یا فضل الرحمان مطالبہ کا بہانہ، چیف جسٹس کی توسیع لٹک گئی

52 / 100

فائل:فوٹو

فوٹو:فائل

اسلام آباد: نمبر گیم میں ناکامی یا فضل الرحمان مطالبہ کا بہانہ، چیف جسٹس کی توسیع لٹک گئی، نجی ٹی وی آج نیوز کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے.
رپورٹ کے مطابق حکومت کی عدالتی اصلاحات پارلیمان میں کل پیش کی جائیں گی، حکومت نے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، حکومت آئینی عدالت قائم کرنے کے لیے ترمیم لا رہی ہے۔

رپورٹ میں ذرائع کا حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نے اس حوالے سے اتحادیوں اور اپنے اراکین پارلیمنٹ کو آگاہ کردیا ہے اور ارکان کو کل پارلیمنٹ میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔

جب کہ دوسری طرف پی ٹی آئی نے ممکنہ قانون سازی پر اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے، ذرائع کے مطابق حکومت نے کسی جج کو ایکسٹینشن نہ دینے کا مولانا فضل الرحمان کا مطالبہ مان لیا ہے اور چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

حکومت آئینی عدالت قائم کرنے کیلئے ترمیم لا رہی ہے، آئینی عدالت کا چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ججز میں سے لگایا جائے گا،
ذرائع کے مطابق بیرون ملک سے کچھ لوگوں کی وطن واپسی پر آئینی ترمیم پیش کردی جائے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے دوسری ترمیم چیف جسٹس پاکستان کی تقرری کے طریقہ کار سے متعلق ہوگی، نئے چیف جسٹس پاکستان کی تقرری کیلئے پانچ سینیئر ججز کا پینل بھیجا جائے گا، حکومت فیصلہ کرے گی کہ ان پانچ سینیئر ججز میں سے کس کو چیف جسٹس بنانا ہے۔

رپورٹ کے مطابق تیسری ترمیم ہائیکورٹ کے ججز کی تقرری سے متعلق ہوگی، ہائیکورٹ کے کسی بھی جج کا ملک میں کہیں بھی تقرر کیا جاسکے گا، ہائیکورٹ کے جج کی تقرری کیلئے متعلقہ جج سے مشاورت کی شق ختم کی جارہی ہے۔

امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ آج قومی اسمبلی عدالتی اصلاحات کیلئے آئینی ترمیم پیش کی جائے گی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اطلاعات موصول ہوئیں کہ حکومت کی جانب سے پارلیمان میں آئینی ترمیم اتوار کو پیش کئے جانے کا امکان ہے۔

وزیراعظم شہبازشریف کی ن لیگ اوراتحادی اراکین کو پیرتک اسلام آباد میں رہنے کی ہدایت کے بعد ان قیاس آرائیوں نے مزید زور پکڑا کہ آج آئینی ترمیم بل پیش نہیں کیا جا سکے گا۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اہم ترین اجلاس آج پھر ہونگے

قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اہم ترین اجلاس اتوار کو پھر ہونگے۔جن میں آئینی ترامیم پیش کیے جانے کاامکان ہے۔ قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت یعنی 224 ارکان کی۔جبکہ سینیٹ میں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو 64 اراکین کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔

آئین میں ترمیم اور عدالتی اصلاحات پیکج۔کیا حکومت نے نمبرز پورے کرلیے؟ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اہم ترین اجلاس آج ہوں گے قومی اسمبلی کے آج ہونے والے اجلاس میں آئینی پیکیج اورچیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کار اورمدت ملازمت میں توسیع دینے کے لیے حوالے سے آئینی ترامیم پیش کیے جانے کی افواہیں گرم ہیں جہاں حکومت نے ترامیم کی منظوری کے لیے درکار اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کی پوزیشن کو دیکھاجائے تو قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت یعنی 224 ارکان کی حمایت حاصل کرنا ہو گی، اگر حکومتی اتحادیوں کے ک?ل نمبروں کا جائزہ لیں تو اس وقت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے پاس 214 ووٹ موجود ہیں۔

ان ارکان میں مسلم لیگ ن کے 111، پاکستان پیپلز پارٹی کے 69 اور متحدہ قومی موومنٹ کے 22 ووٹ شامل ہیں۔

حکمران اتحاد میں شامل پاکستان مسلم لیگ ق کے پاس 5 ووٹ ہیں، استحکام پاکستان پارٹی کے ممبران قومی اسمبلی کی تعداد چار ہے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور ضیا الحق پارٹی کا ایک ایک رکن بھی حکومتی اتحادیوں میں شامل ہے۔

اس وقت قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ارکان کی تعداد آٹھ ہے۔ اگر حکومت کو قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے تو آن کے پاس ترامیم کے حق میں یہ نمبرز 222ہو جائے گے۔

تاہم جے یو آئی کی حمایت کے باوجود حکومت قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر سکتی، حکمران اتحاد کو آئینی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں موجود 2آزاد ارکان کا تعاون بھی درکار ہو گا۔

دوسری جانب سینیٹ میں حکمران اتحاد کے نمبرزکی پوزیشن کو دیکھیں تو ایوان بالا میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو 64 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے، اگر سینیٹ میں نمبرز گیم کی بات کریں تو اس وقت سینیٹ میں حکومتی اتحادی جماعتوں کو56 سنیٹرز کی حمایت حاصل ہے۔

اِن 56 اراکین میں سے مسلم لیگ ن کے 19 اور پاکستان پیپلز پارٹی کے 24 سینیٹرز شامل ہیں جبکہ آنہیں بلوچستان عوامی پارٹی کے چار،متحدہ قومی موومنٹ کے تین اور پانچ آزاد اراکین کیساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے بھی 3سنیٹرزکی حمایت حاصل ہے۔
سینیٹ میں حکمراں اتحاد کو آئینی ترمیم کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پانچ ارکان سمیت مزید 4 ووٹوں کی بھی ضرورت ہو گی۔

پارلیمان میں ممکنہ آئینی ترمیم کے لیے حکومتی اتحادیوں نے اپنے تمام اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ کو اسلام آباد میں ہی رہنے کی ہدایت جاری کی ہے۔

Comments are closed.