وفاقی بجٹ پیش، تنخواہوں اورپنشن میں اضافہ، کم ازکم اجرت 36 ہزار مقرر
فوٹو: سوشل میڈیا
اسلام آباد: وفاقی بجٹ پیش، تنخواہوں اورپنشن میں اضافہ، کم ازکم اجرت 36 ہزار مقررکی گئی ہے،وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آئندہ مالی سال کے لیے 18 ہزار 877 ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا۔
اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس ہوا، وزیرخزانہ محمداورنگزیب نے بجٹ25-2024پیش کیا۔وزیرخزانہ نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا بجٹ پیش کرنا میرے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔
فروری 2024کے انتخابات کے بعد مخلوط حکومت کا یہ پہلا بجٹ ہے،نوازشریف نے پاکستان میں 1990 میں معاشی اصلاحات کی بنیاد رکھی،شہبازشریف کی قیادت میں معاشی مسائل حل کرکے ترقی کی رفتار بڑھائیں گے۔
کچھ عرصہ پہلے پاکستان کی معیشت کو مشکلات کاسامنا تھا،محض ایک سال میں روپے کی قدر میں 10فیصد کمی ہوئی تھی،سیاسی اور معاشی چیلنجز کے باوجود حکومت کی معاشی طور پر پیشرفت متاثر کن رہی۔
وزیرخزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ معاشی نظام کو عالمی معیشت کیساتھ چلنے کیلئے برآمدات کو فروغ دینا ہوگا،یہ وقت ہے اپنی معیشت میں پرائیویٹ سیکٹرکو اہمیت دیں،ماضی میں ریاست پر غیرضروری ذمہ داریوں کابوجھ ڈالا گیا۔
غیرضروری ذمہ داریوں کی وجہ سے حکومتی اخراجات ناقابل برداشت ہوگئے،ماضی کی غیرضروری ذمہ داریوں کی وجہ سے مہنگائی کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑا،زرمبادلہ ذخائر میں خاطرخواہ اضافہ اور افراط زر میں کمی ہوئی۔
اگست 2024کے پہلے ہفتے میں پی آئی اے کی نیلامی کا عمل مکمل ہوجائے گا،ہمیں ٹارگٹڈ ویلفیئر سسٹم کے ذریعے عوامی فلاح پر توجہ دینی ہوگی،ایسی سبسڈیز کو کم سے کم کرنا پڑے گا جو پرائس اور ایفی شینسی میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔
توانائی کی قیمت کو کم کرنے کیلئے پاور سیکٹر میں مارکیٹ پر مبنی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے،ایک سال قبل افراط زر35فیصد تک پہنچ گیا تھا ،پیداواری صلاحیت میں بہتری لانے کیلئے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔
حکومتی اخراجات میں کمی مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی حکمت عملی دوسراہم ستون ہے،ہم حکومتی غیرضروری اخراجات کم کرنے جارہے ہیں،حکومت پنشن کے نظام میں اصلاحات لارہی ہے۔
سرکاری ملازمین کیلئے ریلیف
وفاقی وزیر خزانہ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا بھی اعلان کیا،انہوں نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا 1 سے 16 گریڈ کے سرکاری ملازمین کی قوت خرید بہتر بنانے کے لیے تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے،گریڈ 17 سے 22 گریڈ تک افسران کی تنخواہوں میں22 اضافے کی تجویز ہے۔
پنشن اور کم از کم ماہانہ اجرت
ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 22 فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے،اسی طرح کم سے کم ماہانہ تنخواہ کو32 ہزار روپے سے بڑھا کر 36 ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے۔
بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کی رقم میں 27فیصد اضافے کیساتھ 593ارب روپے رکھے جارہے ہیں،بینظیر کفالت پروگرام میں افراد کی تعداد 93لاکھ سے بڑھاکر ایک کروڑ کی جائیگی،تعلیمی وضائف پروگرام میں 10لاکھ بچوں کا اندراج کیا جائے گا۔
نشوونما پروگرام میں مزید 5لاکھ خاندانوں کو شامل کیا جائے گا،بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے تحت مالی خود مختاری کا سوشل پروگرام لایا جائیگا،بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے تحت پہلی بارپاورٹی گریجویشن پروگرام بھی شروع ہوگا۔
گریڈ 1 سے 16 کی تمام خالی اسامیاں ختم
بی پی ایس 1سے 16 کی تمام خالی آسامیوں کو ختم کرنے کی تجویز زیرغور ہے،اسامیاں ختم کرنے سے 45ارب روپے کی سالانہ بچت ہوگی۔وزیر خزانہ نے کہا وفاقی حکومت پر کھربوں روپے کی پنشنز کے بقایاجات ہیں،پنشن اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
پنشنز اخراجات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے،پنشن کے اخراجات کم کرنے کیلئے اسٹریٹجی ترتیب دی گئی ،جس پرمشاورت ہورہی ہے۔پنشن اسکیم میں اصلاحات لائی جائیں گی.
نئے ملازمین کیلئے کنٹری بیوشن پنشن اسکیم لائی جارہی ہے،پنشن اسکیم سے سرکاری بل میں خاطرخواہ کمی واقع ہوگی۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق موبائل فون پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کردیا گیا،ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات مہنگی ہوں گی ،سیلز ٹیکس پندرہ سے بڑھا کر اٹھارہ فیصد کر دیا گیا۔
تانبے، کوئلے، کاغذ اور پلاسٹک کے اسکریپ پر سیلز ٹیکس نافذ کردیا گیا،نان کسٹم پیڈ سگریٹ بیچنے پر دکان سیل ہو گی،فاٹا اور پاٹا کیلئے دی گئی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،رہائشیوں کو مزید ایک سال انکم ٹیکس چھوٹ ملے گی۔
گاڑیوں کی خریداری پر ٹیکس انجن کپیسٹی کے بجائے گاڑی کی قیمت کے تناسب پر لگے گا،سیلز ٹیکس پر دی گئی چھوٹ ختم کرنے کی بھی تجویز ہے،تنخواہ دارطبقے کیلئے ٹیکس سلیب میں اضافہ نہ کرنے کی تجویز ہے۔نان سیلرڈ کلاس پر زیادہ سے زیادہ45 فیصد ٹیکس لگے گا۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق جائیداد کی خریدوفروخت پر فائلر پر15 فیصد ٹیکس لگے گا،نان فائلرز کے جائیداد خریدنے اور بیچنے پر 45 فیصد تک ٹیکس لگے گا،نئے پلاٹ، رہائشی اور کمرشل پراپرٹی پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگے گی. سگریٹ فلٹر میں استعمال ہونے خام مال پر چوالیس ہزار روپے فی کلو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگے گی۔
نان ٖفائلرز کیلئے کاروباری ٹرانزیکشن پر ٹیکس میں نمایاں اضافہ کیا جارہا ہے،6لاکھ روپے تک آمدن پر انکم ٹیکس چھوٹ برقرار رکھنے کی تجویز ہے۔
وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے مزید کہا کہ توانائی کا شعبہ گردشی قرضوں کے چیلنج سے دوچار ہے،یہ قرض اب ناقابل برداشت ہوچکا ہے،پاور سیکٹر کی پیچیدگیوں کا حل بلا شبہ مشکل ہے۔
پاور سیکٹر میں نقصانات کم کرنے کیلئے ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹریبوشن کو بہتر بنائیں گے۔9بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کا منصوبہ ہے،توانائی کے شعبے میں ڈسٹری بیوشن اورپرفارمنس منیجمنٹ سسٹم کےلئے65ارب روپےجامشورو کول پاور پلانٹ کے لئے 21ارب اور این ٹی ڈی سی کی بہتری کےلئے 11ارب روپےمختص کئے گئے ہیں۔
آبی وسائل کے لئے206ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں،مہمند ڈیم ہائیڈروپاور پراجیکٹ کےلئے 45ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
دیامر بھاشا ڈیم کے لئے 40ارب روپے،چشمہ رائٹ بینک کینال کے لئے 18ارب روپے بلوچستان میں پٹ فیڈر کینال کےلئے 10ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
بجلی چوری کےخلاف مہم میں 50ارب روپے کی بچت ہوئی ہے۔توانائی بچت کو ممکن بنانے والے پنکھوں کیلئے 2ارب روپے،آبی وسائل کے لیے 206ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
سولر پینلز، انورٹرز اور بیٹریوں کے خام مال کی درآمد پر رعایت
وفاقی حکومت نے سولر پینلز، انورٹرز اور بیٹریوں کے خام مال کی درآمد پر رعایت کا اعلان کیا ہے۔بجٹ دستاویز کے مطابق حکومت کی جانب سے برآمد کرنے اور مقامی ضروریات پوری کرنے کے لیے سولر پینلز تیار کرنے کی غرض سے پلانٹ ، مشینری اور اس کے ساتھ منسلک آلات اور سولر پینلز، انورٹرز اور بیٹریوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال اور پرزہ جات کی درآمد پر رعایتیں دی جارہی ہیں تاکہ درآمد شدہ سولر پینلز پر انحصار کم کیا جاسکے اور قیمتی زرمبادلہ بچایا جاسکے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ زراعت ہماری معیشت کا اہم ستون ہے،زراعت ملکی جی ڈی پی کا 24فیصد ہے،زراعت کے ذریعے 37.4فیصد لوگوں کو روزگارملتا ہے،ملک کی فوڈ سیکیورٹی اورصنعتی شعبے کی پیداواری صلاحیت اس شعبے پر منحصر ہے۔
زراعت،لائیواسٹاک اورماہی پروری بھی قیمتی زرمبادلہ کے بڑے ذرائع ہیں،وزیراعظم نے 2022میں کسان پیکج کے تحت اسکیم کااعلان کیا،اگلے سال اس تجویز کے تحت 5ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اوورسیز پاکستانی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں،اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے جانے والے ترسیل زر کا معیشت میں اہم کردار ہے۔
حکومت بیرون ملک مقیم اہل وطن کیلئے متعدد سہولیات متعارف کروا رہی ہے،ترسیل زر کے فروغ کیلئے 86.9ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز ہے،یہ رقم سوہنی دھرتی اسکیم اور دیگر اسکیموں کیلئے استعمال کی جائے گی۔
وفاقی وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریرمیں اعلان کیا کہ آئی ٹی سیکٹر کےلئے 79ارب روپے،کراچی میں آئی ٹی پارک کے قیام کےلئے 8ارب روپے،ٹیکنالوجی پارک اسلام آباد منصوبے کے لئے 11ارب روپے ،ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر کے لئے 20ارب روپے مختص ہونگے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ مالی سال 25-2024 کیلئے اقتصادی ترقی کی شرح3.6 فیصد رہنے کا امکان ہے،افراط زر کی اوسط شرح 12 فیصد متوقع ہے،بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.9 فیصد جبکہ پرائمری سر پلیس جی ڈی پی کا ایک فیصد ہوگا۔
ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ 12 ہزار 970 ارب روپے ہے،ایف بی آر کی اصلاحات کےلئے 7ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 18،877 ارب روپے ہے.
صوبوں کا حصہ 7ہزار438 ارب روپے ہو گا،وفاقی نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 3ہزار587 ارب روپے ہو گا،وفاقی حکومت کی خالص آمدنی9ہزار119 ارب روپے ہو گی۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق لگژری گاڑیوں کی درآمد پر دی جانے والی رعایت بھی واپس لے لی گئی،ہائبرڈ گاڑیوں کی درآمد پر دی گئی کسٹم ڈیوٹی بھی ختم کردی گئی۔
وزیرخزانہ نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ درمیانی درجے کی صنعتوں کو قرض کی فراہمی کا حجم 1100 ارب تک بڑھایا جارہا ہے،بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے ایس آئی ایف سی کے کردار کو سراہتے ہیں۔
دورہ چین سے کئی پاکستانی اور چینی کمپنیوں کے درمیان معاہدوں کاعمل جاری ہے،پاکستان کلائمیٹ چینج اتھارٹی کو فعال بنایا جارہا ہے،اتھارٹی کے قیام سے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے مربوط حکمت عملی بنانے میں مدد ملے گی۔
وفاقی وزیرخزانہ نے کہا کہ دفاعی اخراجات کیلئے 2122ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں،پی ایس ڈی پی میں انفراسٹرکچر کیلئے824 ارب روپے ،ٹرانسپورٹ اور مواصلات کیلئے279ارب،سماجی شعبے کیلئے280 روپے،خیبرپختونخوا کے ضم اضلاع کیلئے64ارب روپے،آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کیلئے75ارب روپے مختص کرنےکی تجویزہے۔
ایوی ایشن ڈویژن کیلئے 4 ارب 48 کروڑ 46 لاکھ روپے،ایئرپورٹ سیکیورٹی فورسز کیلئے 14 ارب 38 لاکھ 34 ہزار روپے،کابینہ کیلئے 35 کروڑ 28 لاکھ روپے،کابینہ ڈویژن کیلئے 3 ارب 33 کروڑ 44 لاکھ روپے،ایمرجنسی ریلیف کیلئے 88 کروڑ 93 لاکھ روپے،انٹیلی جنس بیورو کیلئے 18 ارب 32 کروڑ 24 لاکھ روپے مختص.
اٹامک انرجی کیلئے 19 ارب 26 کروڑ 65 لاکھ روپے،پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی کیلئے ایک ارب 86 کروڑ 61 لاکھ روپے،نیا پاکستان ہاؤسنگ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کیلئے ایک ارب 56 کروڑ 42 لاکھ روپے،وزیراعظم آفس انٹرنل کیلئے 79 کروڑ 37 لاکھ روپے،وزیراعظم آفس پبلک کیلئے 86 کروڑ 5 لاکھ روپے.
این ڈی ایم اے کیلئے 82 کروڑ 29 لاکھ روپے،بورڈ آف انویسٹمنٹ کیلئے ایک ارب 26 کروڑ 16 لاکھ روپے،وزیراعظم انسپیکشن کمیشن کیلئے 14 کروڑ 69 لاکھ روپے،اسپیشل ٹیکنالوجی زون اتھارٹی کیلئے 75 کروڑ روپے،اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کیلئے 9 ارب 66 کروڑ 92 لاکھ روپے.
فیڈرل پبلک سروس کمیشن کیلئے ایک ارب 33 کروڑ 84 لاکھ روپے،نیشنل سیکیورٹی ڈویژن کیلئے 24 کروڑ روپے،مشترکہ مفادات کونسل کیلئے 10 کروڑ 3 لاکھ روپے، موسمیاتی تبدیلی ڈویژن کیلئے ایک ارب ایک کروڑ روپے،کامرس ڈویژن کیلئے 20 ارب 53 کروڑ روپے سے زائد مختص کرنے کی تجویز ہے۔
Comments are closed.