بجٹ میں ہائی پیڈ تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کے سلیبز میں رد و بدل متوقع

45 / 100

فائل:فوٹو

اسلام آباد: وفاقی بجٹ برائے 2024-25ء میں ایک جانب ٹیکسز میں اضافے اور غیر ضروری چھوٹ ختم کیے جانے کا امکان ہے، وہیں پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کے ساتھ ہائی پیڈ تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کے سلیبز میں بھی رد و بدل کا امکان ہے۔

دستاویز کے مطابق وفاقی بجٹ میں دفاع کے لیے 21 سو ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جب کہ قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کے لیے 9 ہزار 7 سو ارب رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح آئندہ مالی سال کے دوران ترقیاتی منصوبوں کے لیے 1500 ارب روپے اور توانائی کے شعبے کے لیے 253 ارب، انفرا سٹرکچر کے لیے 827 ارب مختص ہیں۔

وفاقی بجٹ میں توانائی شعبے کے لیے 800 ارب سبسڈی کے لیے مختص ہیں۔ واٹر ریسورسز کے لیے 206 ارب، ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے لیے 279 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اسی طرح 2024-25ء میں جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 3.6 فیصد مقرر کیا گیا ہے اور اایف بی آر کے لیے 12 ہزار 970 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

آئندہ بجٹ میں ایف بی آر 3720 ارب روپے کا اضافی ریونیو جمع کرے گا۔ رواں مالی سال کی نسبت آئندہ سال ڈائریکٹ ٹیکس 3452 ارب زائد ہوں گے۔ رواں مالی سال کی نسبت آئندہ سال کے لیے کسٹمز ڈیوٹی 267 ارب روپے زائد ہوگی۔

ان لینڈ ریونیو کے ٹیکسز کا حجم 11 ہزار 379 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جب کہ ڈائریکٹ ٹیکسز کا حجم 5 ہزار 512 ارب روپے ہو گا۔ وفاقی بجٹ 2024,25 میں اضافی ٹیکسز کی مد نئے اقدامات متوقع ہیں۔ اسی طرح پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس استثنا مرحلہ وار ختم کیے جانے کا امکان ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات پر 5فیصد سیلز ٹیکس اور سگریٹ و نکوٹین پاوئچ پر ٹیکس بڑھائے جانے کا امکان ہے۔ اسی طرح کتابوں، مارکر سمیت اسٹیشنری پر ٹیکس استثنا بھی ختم کیے جانے کی تجویز شامل ہے۔ برانڈڈ دودھ پر بھی ٹیکس استثنا ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بجٹ میں مقامی و درآمدی گاڑیاں بھی مزید مہنگی ہونے کا امکان ہے۔

نئے بجٹ میں نان فائلرز کے گرد گھیرا مزید تنگ کرنے کے لیے اقدامات ہوں گے۔ بینکوں سے پیسے نکلوانیپرنان فائلرز کے لیے ٹیکس بڑھائے جانے کا امکان ہے۔ درآمدی غذائی اجناس اور پرتعیش اشیا پر ٹیکس کی شرح مزید بڑھانے کا امکان ہے۔ اسی طرح ہائی پیڈ تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کے سلیبز میں رد و بدل کا بھی امکان ہے۔

About The Author

Comments are closed.