سعدیہ مظہر عثمان
میں شاید 14 سال کی تھی جب پہلی بار مجھ سے سوال ہوا، سب ٹھیک ہے ناں؟ اس سوال کے جواب میں مزید سوالات نے جنم لیا میرے ذہن میں۔ یعنی کیا خراب ہو سکتا ہے؟
حیا،، مروت اور مزید جو چاہے کہیے، ان سب نے بہت فاصلے بنا رکھے تھے ماں بیٹی کے درمیان۔ مجھے میری ماں بتا ہی نہیں پائی کہ یہ ماہواری کیا بلا ہوتی ہے؟ لیکن جب اسے شک ہوا تو سوال ضرور پوچھا کہ سب ٹھیک ہے ناں؟
میرے ٹیسٹ میچ کا آغاز تو یوں ہی ہوا مگر سامان بہت عجیب ملا یعنی کپڑا جسے ہر بار دھونے کے بعد پھر قابل استعمال بنانا پڑتا تھا اور سکھانے کے لیے بھی ایسی جگہ کا انتخاب کرنا پڑتا تھا جہاں کسی کی نظر نہ پڑے۔ ایسا لگتا تھا کوئی کبیرہ گناہ ہر ماہ پانچ دن کے لیے سر پر تھوپ دیا جاتا ہے.
مجھے ہمیشہ یہ سوچ کر ابکائی آئی کہ میں اس خون سے بھرے کپڑے کو جس میں سے بو بھی آتی ہو، کیسے دھو سکتی ہوں؟ دوسرا بڑا سوال یہ تھا کہ کیا یہ دوبارہ استعمال کیا جائے تو کیا یہ جراثیم سے پاک ہو گا؟
امی سے تو یہ سوال ہو نہیں سکتے تھے اور انٹرنیٹ تب اتنا عام استعمال میں تھا نہیں، پھر پیڈ کا زمانہ آیا اور اس مصیبت سے نجات ممکن ہوئی مگر!
پاکستان کی آبادی کا نصف خواتین ہیں اور ان میں اکثریت دیہات یا ایسے علاقوں میں ہیں جہاں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
یو این اور کچھ پاکستانی آرگنائزیشنز نے بلوچستان کے کچھ علاقوں میں اس حوالے سے کچھ ورکشاپس وغیرہ کروائی ہیں مگر پنجاب اور سندھ ابھی تک منتظر ہیں، جہاں ماہواری شروع ہوتے ہی لڑکی کا امتحان شروع ہوتا ہے۔
یہ درد بھی حمل کے درد کی سی شدت رکھتا ہے اور گندا کپڑا استعمال کرنے سے بہت سی جسمانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ بانجھ پن کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ جن کے پاس دو وقت کھانے کو روٹی نہیں، وہ دو تین سو کے پیڈ کا پیکٹ کیسے خرید سکتا ہے؟
یہ پہلا مسئلہ ہے مگر اس سے بہت بڑا مسئلہ اس پر بات نہ کرنا ہے۔ آپ نے کبھی ڈائپرز خریدے ہیں؟ جی بچوں کے ڈائپرز۔
کیا آپ مارکیٹ سے انہیں بھی چھپا کر خاکی لفافے میں ڈال کر لاتے ہیں؟ نہیں ناں! تو پھر یہ سینٹری پیڈ ہی کیوں اتنے حجابوں میں خریدے جاتے ہیں؟سوچیے ذرا۔
جیسے بیاہ کے روز سب دولہا دلہن کو دیکھ کر چہک رہے ہوتے ہیں لیکن دماغ میں سب ان کے سہاگ رات میں ہونے والے سیکس کو تصور کر رہے ہوتے ہیں.
ایسے ہی ہر سٹور، دکان اور مارکیٹ میں پیڈ تو پڑے ہوں گے مگر کوئی خاتون مردوں کے سامنے خریدے گی نہیں۔ تعجب تو اس بات کا ہے کہ کچھ مرد حضرات سینٹری پیڈ لینے رات کو نکلتے ہیں تاکہ کوئی انہیں دیکھ نہ لے۔
روایات، رواج، ادب و احترام سر آنکھوں پر مگر عورت کو اس کی زندگی کے بنیادی مسائل اور ضروریات پر بات کرنے کی آزادی تو دیجیے جناب!
تعلیم، رہائش اور بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ بچیوں کو ماہواری سے آگاہ کرنا، جسم میں اس کے بعد آنے والی تبدیلیوں سے آگاہ کرنا اور گندے کپڑوں کے استعمال سے پرہیز کروانا اشد ضروری ہے۔
بزرگوں کا کہا اپنی جگہ مگر یہ غلط ہے کہ آپ کی ماہواری شروع ہوئی تو اب آپ نہا نہیں سکتیں جبکہ ان ایام میں نہانا اور جسم کی صفائی کا خیال رکھنا بہت اہم ہے.
اس پر بات کرنا بے حیائی نہیں بلکہ لڑکی کا بنیادی حق ہے۔ پیڈ خریدنے میں شرم اور جھجک بلاوجہ کے بوجھ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
دوستی کیجیے اپنی بیٹیوں سے، انہیں ان کے ٹیسٹ میچ کے لیے خود مکمل تیار کیجیے، اپنے گھر میں آنے والی کام والیوں کو بھی اس سلسلے میں صحت اور صفائی کی ضروریات سے آگاہ کیجیے۔ یہ ہماری جسمانی ضروریات میں شامل ہے۔ اس لیے شرمندگی کے احساس کی بجائے سر اٹھا کر جئیں.
(بشکریہ ہم سب)
Comments are closed.