سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا، کورٹ مارشل کی کارروائی شروع
فوٹو: فائل
راولپنڈی: سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا، کورٹ مارشل کی کارروائی شروع،آئی ایس پی آر کے مطابق سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں پاک فوج نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں کی گئی شکایات کی درستگی کا پتہ لگانے کے لیے تفصیلی کورٹ آف انکوائری کا آغاز کیا.
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ٹاپ سٹی کی کورٹ آف انکوائری شروع کی گئی، فیض حمید کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی کئی خلاف ورزیاں ثابت ہو چکی ہیں۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے تفصیلی کورٹ آف انکوائری کی گئی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا.
آئی ایس پی آر نے بتایا کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ۔۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت مناسب انضباطی کارروائی کا آغاز کردیا گیا،
اس سے قبل سپریم کورٹ نے اس سے متعلق درخواست نمٹاتے ہوئے کہا تھا کہ درخواست گزار کے پاس فیض حمید سمیت دیگر ریٹائرڈ فریقین کے خلاف تین فورمز ہیں.
درخواست گزار چاہے تو وزارت دفاع، سول یا کریمنل کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے اس لیے سپریم کورٹ کیس کے میرٹس کو چھیڑے بغیر یہ درخواستیں نمٹاتی ہے.
ٹاپ سٹی معاملات کا پس منظر اور عدالتی کارروائی
دریں اثناء مزید تفصیلات ٹاپ سٹی سکینڈل کیس میں جنرل فیض حمید کے خلاف انکوائری کیلئے 8 نومبر 2023 کو ٹاپ سٹی کے مالک معیز احمد خان نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی جس میں انہوں نے آرٹیکل 184/3 کے تحت فائل کی.
پیٹیشن میں یہ الزام لگایا کہ سابقہ DG ISI لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے اپنی اتھارٹی کو ان کے اور ان کی فیملی کے خلاف غیر قانونی طور پر استعمال کیا.
معیز احمد خان کی طرف سے جو پٹیشن سپریم کورٹ میں فائل کی گئی اس میں یہ کہا گیا کہ 12 مئی 2017 کو جنرل فیض حمید کے کہنے پر آئی ایس آئی کے آفیشلز نے ٹاپ سٹی آفس اور معیز احمد کے گھر پر چھاپہ مارا جس کے دوران اُن کے گھر سے قیمتی اشیاء جس میں گولڈ، ڈائمنڈ اور پیسے شامل ہیں، ریڈ کے دوران آئی ایس آئی آفیشلز اٹھا کر لے گئے.
پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ سابقہ DG ISI لیفٹیننٹ جنرل حمید فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے اس مسئلے کو بعد میں حل کرنے کے لیے ان سے رابطہ بھی کیا.
اس پٹیشن میں یہ کلیم بھی کیا گیا کہ جنرل فیض نے بعد میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ان سے خود ملاقات بھی کی جس میں انہوں نے یہ یقین دہانی دلائی کہ ان میں سے کچھ چیزیں جو کہ ریڈ کے دوران آئی ایس آئی کے آفیشلز ساتھ لے گئے تھے وہ ان کو واپس کر دی جائیں گی البتہ 400 تولہ سونا اور کیش ان کو واپس نہیں کیا جائے گا.
پٹیشن میں یہ بھی الزام لگایا گیا کہ آئی ایس آئی آفیشلز نے ان سے زبردستی چار کروڑ روپیہ کیش بھی لیا، پٹیشن میں مختلف آئی ایس آئی آفیشلز اور سابقہ DG ISI جنرل فیض حمید کے بھائی سردار نجف پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ ٹاپ سٹی کو غیر قانونی طور پر ٹیک اوور کرنا چاہتے تھے.
معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے اور ان سنگین الزامات کی پاداش میں سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل بینچ جس میں چیف جسٹس اف پاکستان جسٹس قاضی فائض عیسی، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین شامل تھے اس کیس کو سنا اور فیصلہ دیا کہ یہ کافی سنگین معاملہ ہے.
اس معاملے کی سنگین نوعیت ہونے کی وجہ سے ادارے کی عزت اور توقیر میں حرف آ سکتا ہے، اس لیے اس معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، معاملے کی مزید انویسٹیگیشن کے لیے سپریم کورٹ نے پٹیشنر کو یہ کہا کہ وہ اس مسئلے کو وزارت دفاع کے ساتھ اٹھائے.
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اعلی عدلیہ کو یہ یقین دہانی کرائی کہ اس معاملے پر مکمل تعاون کیا جائے گا اور قانون کے مطابق اس کے اوپر ایکشن لیا جائے گا.
اعلی عدلیہ کے احکامات کے مطابق اور وزارت دفاع کی ہدایات کی روشنی میں، پاکستان فوج نے اپنے احتساب کے عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے تمام معاملات کو ایک ہائی لیول ادارتی انکوائری کے ذریعے انویسٹیگیٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا.
ان سنگین الزامات کی تحقیق کرنے کے لیے اعلی سطحی انکوائری کمیٹی ایک میجر جنرل کی سربراہی میں بنائی گئی تھی، پاک فوج میں خود احتسابی کا ایک کڑا اور انتہائی شفاف نظام موجود ہے.
اسی نظام کو آگے بڑھاتے ہوئے ایسے تمام الزامات کی بڑی سنجیدگی کے ساتھ تفتیش کی جاتی ہے اور ذمہ داران کو کڑی سزائیں بھی دی جاتی ہیں تاکہ پاک فوج کے خود احتسابی کے شفاف عمل پر کوئی آنچ نہ آ سکے.
Comments are closed.