قومی اسمبلی نے 322 بلز منظور کئے، 7 ارکان 5 سال کارروائی کا حصہ نہیں بنے، فافن

48 / 100

فوٹو: فائل

اسلام آباد: قومی اسمبلی نے 322 بلز منظور کئے، 7 ارکان 5 سال کارروائی کا حصہ نہیں بنے، فافن نے 15 ویں قومی اسمبلی کی کارکردگی رپورٹ جاری کردی، آخری ہفتے بیشتر مسودہ قانون عجلت میں منظور کئے گئے.

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کی جانب سے 15 ویں قومی اسمبلی کی کارکردگی جاری کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2018 سے 2023 کے دوران قومی اسمبلی کے 52 سیشنز میں 657 اجلاس ہوئے۔

مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی کاروائی ایک ہزار 310 گھنٹے اور 47 منٹ جاری رہی۔ 5برسوں میں ایوان نے 322 بلز منظور کیے جن میں 99 پرائیویٹ ممبر بل بھی شامل ہیں۔

پہلے سال ارکان کی اجلاس میں اوسط حاضری 2050 رہی جو پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں کے باعث پانچویں سال تک کم ہو کر 117 تک رہ گئی۔ جبکہ 7 ارکان نے 5 سال تک ایوان کی کسی بھی کاروائی میں حصہ نہیں لیا۔

رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی نے قانون سازی میں سابق 3 اسمبلیوں کو پیچھے چھوڑ دیا، صرف زیادہ قانون سازی ہی نہیں ملک کی پندرہویں اسمبلی کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ ایک وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے کرسی سے ہٹایا گیا، قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔

فافن کے اعداد و شمار کے مطابق شہباز شریف کی قیادت میں 16 ماہ رہنے والی حکومت کا قانون سازی میں حصہ 54 فیصد جبکہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی سربراہی میں قائم ساڑھے 3 سال رہنے والی حکومت کا حصہ 46 فیصد رہا۔

رپورٹ کے مطابق 54 فیصد قانون سازی مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت کے 16 ماہ میں کی گئی، قومی اسمبلی نے 52 اجلاسوں میں 442 ورکنگ دنوں میں 1310 گھنٹے 47 منٹ کام کیا۔

فافن رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ اسد قیصر نے 40 اور قاسم سوری نے 37 فیصد اجلاسوں کی صدارت کی، راجہ پرویز اشرف نے 53 اور زاہد اکرم درانی نے 29 فیصد اجلاسوں کی صدارت کی۔

بحیثیت وزیراعظم چیئرمین پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں حاضری 9 فیصد جبکہ شہباز شریف کی 17 فیصد رہی، شہباز شریف نے بطور قائد حزب اختلاف 27، راجہ ریاض نے 40 فیصد اجلاسوں میں شرکت کی۔

رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی اجلاسوں میں حاضری کی شرح پہلے سال 73 فیصد تھی، قومی اسمبلی اجلاسوں میں آخری سال حاضری کی شرح کم ہو کر 34 فیصد رہ گئی، قومی اسمبلی اجلاس میں 131 بار کورم کی نشاندہی کی گئی، اجلاس کے دوران 74 بار مظاہرے کیے گئے، سب سے زیادہ ترمیمی بلز اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ سے متعلق تھے۔

فافن رپورٹ میں بتایا گیا کہ معیشت،تجارت، ایف اے ٹی ایف اور ٹیکس امور پر تیسرے نمبر پر قانون سازی ہوئی، انصاف سے متعلق بھی قومی اسمبلی میں ترجیحی قانون سازی ہوئی، قومی اسمبلی نے چند جرائم کے لیے سزائے موت بھی ختم کی، 58 بلز پیش ہونے کے دن یا 3 روز کے اندر منظور کروائے گئے۔

قومی اسمبلی نے 152 قرار دادیں منظور کیں، قومی اسمبلی میں 9765 سوالات، 423 توجہ دلاؤ نوٹس اٹھائے گئے،7 ممبران اسمبلی نے نہ کوئی ایجنڈا پیش کیا نہ بحث میں شریک ہوئے، ان میں 4 پی ٹی آئی، 2 پیپلز پارٹی اور ایک مسلم لیگ ن کے رکن تھے.

Comments are closed.