مشترکہ اجلاس میں بیک ڈور سے شامل کی گئی شق پر پھڈا، اجلاس ملتوی کرنا پڑا،

52 / 100

فوٹو: فائل 

اسلام آباد: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بیک ڈور سے شامل کی گئی شق پر پھڈا، اجلاس ملتوی کرنا پڑا، انتخابی اصلاحات میں یہ شق کہاں سے آگئی؟ اجنبی شق دیکھ کر ارکان پارلیمنٹ کا قانون سازی سے انکار، شق نگران حکومت کو بااختیار اور مدت بڑھانے کے اختیار سے متعلق تھی سپیکر کو مجبوراً اجلاس ملتوی کرنا پڑا. 

ارکان پارلیمنٹ نے کہا قائمہ کمیٹی میں جو مسودہ آیا اس میں یہ شق نہیں تھی، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انتخابی اصلاحات قوانین کی منظوری کل تک کے لیے موخر کر دی گئی ہے۔ الیکشن ایکٹ میں ترامیم کی منظوری کا عمل ارکان کے احتجاج پر موخر کر دیا گیا۔

بعض ارکان نے بل کے مسودے کی کاپی نہ ملنے پر احتجاج کیا، اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے ارکان کو مسودے کی نقول فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔ 

وفاقی وزیر قانون اعظم تارڑ نے ارکان کے احتجاج پر جواباً کہا کہ جو مسودہ کمیٹی نے منظور کیا وہی ایوان میں لایا جا رہا ہے۔ ایک فل اسٹاپ کی بھی تبدیلی نہیں کی گئی تاہم ارکان نے کہا یہ شق اس میں شامل نہیں تھی. 

اسپیکر قومی اسمبلی پرویز اشرف کی زیر صدارت پارلیمنٹ کے مشترکہ میں انتخابی اصلاحات سے متعلق بل کا مسودہ منظوری کے لیے پیش نہیں کیا جا سکا۔ 

ایوان کی کاروائی شروع ہوئی تو پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے منظوری کے لیے پیش کیے گئے بِلوں کی نقول نہ ملنے پر احتجاج کیا۔ 

پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ارکان کو بِلوں کی تفصیلات فراہم نہ کرنے سے پارلیمان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ جس پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے سابق دور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ایوان میں ایک منٹ میں چَون قانون بھی منظور ہوئے۔ 

اس لیے اب تنقید کرنے والوں کو ماضی بھی یاد رکھنا چاہئے۔ ارکان کے احتجاج پر اسپیکر نے ارکان کو کاپیاں فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔

خواجہ آصف کی تقریر کے دوران ایوان میں ارکان نے شور شرابا کیا۔ کئی اپوزیشن ارکان اسپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہو گئے۔ وزیر قانون اعظم تارڑ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں کوئی ترامیم خفیہ نہیں ہو رہی۔

 انتخابی اصلاحات کمیٹی میں تمام جماعتوں کی نمائندگی شامل تھی۔ اب اعتراض کرنے والے بتائیں کہ کمیٹی کے اجلاسوں میں اعتراضات کیوں ہیں اٹھائے گئے۔ جو مسودہ کمیٹی سے منظور ہوا وہی ایوان میں لایا جا رہا ہے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں الیکشن ایکٹ کے حوالہ سے کمیٹی میں موجود رہے، تاہم اس دوران جو ابہام پیدا ہوا وہ نگران وزیر اعظم کے حوالہ سے گفتگو پر ہوا. 

انھوں نے کہا یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ چند ترامیم ایسی ہیں جو ہم نے منظور نہیں کیں، اگر 230 کی ترمیم کی بات کر رہے ہیں تو منظور نہیں، اگر نگران حکومت نے ان ترامیم سے فائدہ اٹھا کر 3ماہ سے 3سال تک مدت کرنی ہے تو ہمیں قبول نہیں. 

سینیٹر کامران مرتضی اگر ایسی کوئی ترمیم ہوتی ہے تو ہم اس میں ساتھ نہیں، حکومت چلانا منتخب نماٸندوں کا کام ہے، نگران حکومتوں کا نہیں ہم الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 230 میں ترمیم کرکے نگران وزیراعظم کو بااختیار بنانے خلاف ہیں،ہم اس ترمیم کی حمایت نہیں کرتے. 

جے یو آئی کےسینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ وزیر قانون نے بڑے میٹھے انداز میں بات کردی مگر باقی چیزوں کو دیکھنا لازمی ہے جس طرح ترمیم 230 لائی جارہی تھی اس نے تو بہت سے سوال اٹھادیئے. 

کہا ایک شخص کا نام نگران وزیراعظم کیلئے گردش کرنے لگا ہے، ایسا لگا جیسے یہ 90 روز کیلئے نہیں پھر 9 ماہ اور 9 سال تک معاملے جانے کے خدشات پیدا ہوگئے. 

پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کیلئے بنائی گئی کمیٹی نے خوش اسلوبی سے بحث کی گئی، جو کچھ اس کمیٹی میں فیصلے ہوئے ہیں صرف وہی آرٹیکل یہاں پیش ہونگے. 

انھوں نے کہا کہ میں نے سینیٹر مشتاق سے بھی کہا تھا کہ اچھی ترامیم آئیں گی، آرٹیکل 2A جیسی ترامیم آنے سے غصہ بھی آیا اور افسوس بھی ہوا، نگران سیٹ اپ تو غیر جانبدار سیٹ اپ ہوتا ہے تاکہ کسی کو شک نہ رہے. 

نگران سیٹ کو ملک چلانے کی اجازت نہیں ہوتی وہ صرف الیکشن تک حکومت ہولڈ کرتے ہیں، البتہ اس ترمیم میں کہا گیا گیا ہے کہ وہ ہر قسم کے فیصلے کرسکتا ہے اس سے پہلے کہ کوئی بھی بل پارلیمنٹ میں آئے اسے ممبران کو بھجوایا جائے 

ہم مختلف ملکوں کے سفرا نہیں بلکہ اس ایوان کے منتخب نمائندے ہیں،یہ انڈر دی کارپٹ نکلنے لگا تھا جس کی نشاندہی کی گئی 

بیرسٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا سینیٹر علی ظفر سفر پر جارہے تھے، ہم نے کچھ ایجنڈا مزید چلانا تھا، ہم نے صرف یہ کہا شیڈول آنے تک تبادلے ہوسکتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں، صرف جاری رہنے والی چیزوں کو آگے بڑھتے رہنا چاہیئے چ آئی ایم ایف کیساتھ ایک معاہدہ ہوا ہے 

سینیٹر میاں رضا ربانی نے اس ترمیم سے میرا شدید اختلاف ہے کیونکہ اس کے اوپر لاتعداد فیصلے موجود ہیں، نگران حکومت کے رول پر عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں، آپ ایک نگران حکومت کو منتخب حکومت کے برابر لارہے ہیں. 

اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر بھی حکومتی ترمیم کے خلاف بول پڑے، کہامیں اصلاحات کمیٹی کے ہر اجلاس میں شریک رہاسیکشن 230 کے سب سیکشن 2A میں کوئی ترمیم کمیٹی میں پیش نہیں ہوئی. 

گزشتہ حکوُمت نے جو آئی ایم ایف نے ہمارے گلے میں ڈالا اسے مزید سخت نہ کیا جائے، بعد میں اسپیکر نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس حکومتی ارکان کی تجویز پر انتخابی اصلاحات قوانین کی منظوری کل تک کے لیے موخر کر دی اور اجلاس کل ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردیا. 

Comments are closed.