فاٹا کا خیبر پختونخواہ میں انضمام ، قومی اسمبلی میں بل منظور
اسلام آباد(ویب ڈیسک) فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق 31 آئینی ترمیم قومی اسمبلی نے منظور کر لی، حق میں 229ووٹ پڑے،
قومی اسمبلی کاسپیکر سردار ایاز صادق کی زیرصدارت کا اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی تھے۔
وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف محمود بشیر ورک نے فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق 31ویں آئینی ترمیم بل پیش کیا۔جس پر 228ووٹوں کے حمایت کے حصول کیلئے کافی انتظار بھی کرنا پڑا۔
حکمران اتحاد میں شامل جمعیت علمائے اسلام (ف)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کے رہنما داور کنڈی نے بل کی مخالفت کی جب کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین نے اس دوران بل کی کاپیاں بھی پھاڑدیں۔
31 ویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری لی گئی۔اور بل کی حمایت میں 229 اراکین نے ووٹ دیا جب کہ صرف ایک رکن نے اس کی مخالفت کی۔
مخالفت کرنے والے حکومتی اتحادی مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی ایوان میں موجود نہیں تھے تاہم دونوں جماعتوں کے ارکان نے آئینی ترمیمی بل کی مخالفت کی۔
آئینی ترمیم کے حوالے سے جے یو آئی (ف) کے رکن اسمبلی جمال الدین نے کہا کہ پاکستان کے آئین سے فاٹا کا نام آج نکل رہا ہے، فاٹا کے عوام سے رائے لئے بغیر نظام مسلط کریں گے تو مسائل ہوں گے۔
جے یو آئی (ف) کی ہی رکن شاہدہ اختر نے کہا کہ فاٹا کو الگ صوبہ بنائیں ان کا حق نہ چھینا جائے۔پشتونخوا میپ کی رکن نسیمہ پانیزئی نے ایوان سے واک آوٴٹ کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کے عوام کی رائے کے خلاف اقدام قبول نہیں۔
اسلام آباد(ویب ڈیسک)فاٹا اصلاحات بل کے تحت آئندہ پانچ سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12 اور سینیٹ میں 8 نشستیں برقرار رہیں گی اور فاٹا کے لیے مختص صوبائی نشستوں پر انتخابات اگلے سال ہوں گے۔
صوبائی حکومت کی عملداری سے صدر اور گورنر کے خصوصی اختیارات ختم ہوجائیں گے اور ایف سی آر کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔
این ایف سی ایوارڈ کے تحت فاٹا کو 24 ارب روپے کے ساتھ 100 ارب روپے اضافی ملیں گے اور 10 سال کے لیے ایک ہزار ارب روپے کا خصوصی فنڈ ملے گا جو کسی اور جگہ استعمال نہیں ہو سکے گا۔
ترمیمی بل میں سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے گا جب کہ پاٹا اور فاٹا میں 5 سال کے لیے ٹیکس استثنا دیا جائے گا۔
Comments are closed.