اقبال،پاکستان اور آج کا نوجوان
خالد مجید
یہ9 نومبر 1877 ایک عام سا دن اور ایک عام سی تاریخ تھی لیکن اس دن سیالکوٹ کے ایک محلے کی کچی پکی گلی کے ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ اس قدر اھم ھو گا کہ 1938 وفات پا جانے کے باوجود وہ پوری دنیا کے دلوں پر راج کر رھا ھیے ، جس کے افکار ، جس کے اشعار ، جس کے نظریات لوگوں کو ازبر ھوں گے ۔ اور معاشرے اس سے اصلاح پاہیں گے.
ھر مکتب فکر کے لیے واضح پیغام دیا ہے،خاص طور پر نوجوانوں کو بہت واضح اور خاص پیغام دیا تھا. حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال کی نوجوانوں سے توقعات بہت زیادہ تھیں.
اسی طرح اگر غور کیا جائے تو اندازہ ھو تا ھیے کہ علامہ اقبال نے جہاں معاشرے کو مثبت رخ سوچنے کی فکر دی ہے وھاں نوجوانوں کو انقلابی پیغام کی طرف ابھارا ہے۔ انھوں نے اپنی قوم کی رہنمائی کے لیے اپنے مستقبل کی قربانی دینے کو ترجیح دی، انقلابی شاعری کے ذریعے نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی اور خود بھی عملی طور پر تشکیل پاکستان کے مشن میں شریک ہوگئے۔
پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے اس میں نوجوانوں کا کردار یقیناً بہت اہم ہے اور اقبال نے اپنے کردار سے بھی یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انھوں نے غلامی کی زنجیروں کو اپنے نوجوانی کے دور میں توڑا اور توڑنے کا سلیقہ بھی سکھایا۔
9 نومبر 2023 یا یوم اقبال منانے کا اہم نکتہ یہ ہے کہ آج ہم آزاد قوم کے افراد ہونے کے ناتے سے اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے کس حد تک متحرک ہیں اور نوجوان نسل کس حد تک سرگرم عمل ہے۔ یہی طرز فکر علامہ اقبال کا تہذیبی ورثہ ہے۔
ہم جب اپنے کردار و عمل پر تنقیدی نظر ڈالنے کی صلاحیت پیدا کرلیں گے تو یقیناً قدرت ہمیں آسانیاں عطاکرے گی اور ہم مشکلات پر قابو پانے کی صلاحیت حاصل کرسکیں گے۔
یہاں سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ آج کا پاکستانی نوجوان علامہ اقبال اور ان کی فکر سے واقف ہے یا صرف 9 نومبر کو چھٹی کے دن کے طور پر مناتاہے
۔ کیا پیغام اقبال ہمیں یہی درس دیتا ہے؟
آج ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کی منزل دولت اور اسٹیٹس کا حصول ہے۔ اس منزل کا انجام جو بھی ہو، لیکن سوچنا تو یہ ھیے کہ کیا یہ راستہ اقبال نے اپنے نوجوان کے لیے سوچا تھا تو دل کے نہاں خانے سے آواز آئے گی کہ نہیں.
یہ اقبال کا راستہ یہ نہیں، اقبال نے نوجوانوں کو خدمت کی فکر سے آراستہ کیا ہے اور تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ’جہاں ہے تیرے لیے، تو نہیں جہاں کے لیے‘ کے پیرائے میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو سب نے بہترین مخلوق قرار دیا ہے، یہ ہمارے لیے عظمت کی دلیل ہے، اس لیے اقبال نے کائنات کی تسخیر کا کام اپنے شاہین یعنی نوجوانوں کے سپرد کیا ہے۔
مسلم نوجوانوں کی زندگی صرف یہ نہیں ہونی چاہیے کہ وہ تعلیم اس لیے حاصل کریں کہ انھیں ملازمت مل جائے یا دولت کمائیں؟ بلکہ اقبال نے نوجوانوں کو ان کا ماضی یاد دلاتے ہوئے کہا ہے کہ تمہارے اسلاف نے اس دنیا کی رہنمائی کی ہے۔
پاکستان کی آبادی میں نوجوان 70 فیصد ہیں جو پاکستان کا مستقبل ہیں۔پاکستان کے نوجوان مایوسی کا شکار ہیں. اور یہ نوجوان کنفیوز ہے۔ نوجوان اگر علامہ اقبال کی فکر اور فلسفے سے راہنمائی حاصل کریں تو وہ یقینا مثالی اور معیاری انسان بن کر پاکستان کی بہتر خدمت کرکے پاکستان کے تمام مسائل حل کر سکتے ہیں۔
کبھی کبھی یہ احساس ھوتا ہے کہ علامہ اقبال بھی اپنی نسل کے بزرگوں سے مایوس تھے کیونکہ وہ جمود اور تقلید کا شکار تھے اور تبدیلی پر مائل نہیں ہوتے تھے علامہ اقبال نے بزرگ نسل کے بارے میں یہ کہا تھا
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
علامہ اقبال کی آرزو تھی کہ مسلمان نوجوان شاہین بنیں کیونکہ شاہین ایک ایسا پرندہ ہے جو خود داراور غیرت مند ہے دوسروں کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا، اپنا آشیانہ نہیں بناتا خلوت پسند ہے اور تیزنگاہ ہے۔ علامہ اقبال چاہتے تھے کہ یہی خصوصیات نوجوانوں میں پیدا ہو جائیں تو وہ ایک مثالی قوم کی تشکیل کر سکتے ہیں۔
علامہ اقبال نے فرمایا میں بزرگوں سے ناامید ہو ں آنے والے دور کی بات کہنا چاہتا ہوں ،جوانوں کے لئے میرا کلام سمجھنا اللہ تعالیٰ آسان کر دے تاکہ میرے شعروں کی حکمت اور دانائی ان کے دلوں کے اندر اتر جائے اور وہ انسان کامل بن جائیں۔ علامہ اقبال نے فرمایا-
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
علامہ اقبال نے اپنی مثنوی اسرار و رموز میں ایک حکایت بیان کی جس میں ایک نوجوان نے سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ سے دشمنوں کا خوف دور کرنے کے لیے راہنمائی طلب کی تو انہوں نے فرمایا اے راز حیات سے ناواقف نوجوان تو زندگی کے آغاز اور انجام سے غافل ہے تو دشمنوں کا خوف دل سے نکال دے تیرے اندر ایک قوت خوابیدہ موجود ہے اس کو بیدار کر ۔ علامہ اقبال نے اپنی اردو شاعری میں نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا
علامہ اقبال اپنے رب سے دعا کرتے ہیں
جوانوں کو میری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کر دے
علامہ اقبال نے نوجوانوں کو خودی کا پیغام دیا اور فرمایا کہ نوجوان خود شناسی سے خدا شناسی کا سفر طے کریں، تو یقیناً منزل آسان اور سہل ھو جائے گی.
پاکستان خواب اقبال ہے، جس کی تعبیر آج کے نوجوانوں نے کرنی ہے۔ یقیناً پاکستانی نوجوانوں میں ایک عزم و حوصلہ موجود ہے لیکن انھیں تربیت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ تعمیر پاکستان کے لیے نوجوانوں کو قلم اور کتاب سے رشتہ استوار کرنا ہوگا، علمی صلاحیتوں کو فروغ دیتے ہوئے غفلت اور لاپروائی کے رویے کو ترک کرنا ہوگا۔ تو یقیناً ہم اس معاشرے کی تعمیر کرسکیں گے.
اقبال،پاکستان اور آج کا نوجوان
Comments are closed.