یا اللہ اور مہمان بھیج

51 / 100

شہریار خان

ایک گھر میں تنگدستی تھی، سفید پوش گھرانہ تھا اس لیے ان سے میل جول میں کبھی پتا نہیں چلتا تھا کہ ان کے حالات کیسے ہیں۔۔ ایسے دنوں میں جب گھر کے واحد کفیل کو یہ معلوم ہوا کہ گھر میں مہمان آ رہے ہیں تو اس نے سر پکڑ لیا۔

بجلی کا بل، گیس کا بل، بچوں کی سکول کی فیس، دودھ والے کا بل، گھر کا راشن خریدنے کے بعد کچھ بچتا ہی نہیں.. ایسے میں رشتے داروں کا آنا۔۔ کیسے ہو گا یہ سب؟؟ سب رشتے داروں کو ہمارے حالات پتا چل گئے تو کیا ہو گا؟

ایسے میں اس کی بوڑھی والدہ اٹھیں اور اپنے کمرے میں رکھے پرانے سے بکسے کو کھول لیا۔۔ اس میں سے کپڑے ہٹائے تو نیچے سے ایک ڈبہ نکلا۔۔ ماں جی نے اس میں سے دو سونے کے کڑے نکالے اور خاموشی سے بیٹے کے ہاتھ پہ دھر دئیے۔

بیٹے نے ماں کی جانب دیکھا تو اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔۔ ماں نے پیار سے بیٹے کے ماتھے کو بوسہ دیا اور بولی، پگلے یہ چیزیں اسی لیے ہوتی ہیں۔ تم گھر کو روغن بھی کروا لو، بکرا بھی لے آؤ اور بھی گھر میں جو سامان چاہئے وہ لے آؤ، گھر کی عزت کا معاملہ ہے۔

سونے کے کنگن تو بک گئے مگر خاندان میں بلے بلے ہو گئی، حق میزبانی ادا ہو گیا، گھر میں نیا روغن بھی ہو گیا، تمام کمروں میں چادریں بھی بدل گئیں، سرہانے بھی نئے ہو گئے۔ برسوں کے میلے پردے بھی دھل گئے اور کھانوں کا تو پوچھئے مت۔۔

پہلی رات ایسا کھانا تھا کہ مہمان بھی حیران رہ گئے، کافی عرصے بعد گھر کے بچوں نے بھی گوشت کھایا۔۔۔ ایک بوٹی کے بعد جب اس نے للچائی نظروں سے اپنی دادی کی جانب دیکھا تو دادی کا کلیجہ کٹ کے رہ گیا۔۔ دادی نے پوتے کی پلیٹ میں دو تین بوٹیاں ڈالیں تو اسے یقین ہی نہیں آیا۔۔ سب نے رات کو کیرم بھی کھیلا۔

صبح جب دادی کے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد دعا مانگی تو بولا، یا اللہ ایسے مہمان تو روز بھیج۔۔ تاکہ ہم بھی ایسے گوشت کھا سکیں۔۔ دادی نے پیار سے پوتے کو گلے لگا لیا،
اس وقت دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔

آج جب میں اسلام آباد سے واپس آ رہا تھا ایسے ہی میری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے اور بے اختیار دل سے دعا نکلی کہ یا اللہ ایسے ہی اسلام آباد میں روز مہمان بھیج تاکہ یہ ایسے ہی چمکتا رہے۔ وفاقی دارالحکومت کے ہر پل کے نیچے نہ صرف نیا روغن ہو چکا ہے بلکہ نئی لائٹس بھی لگائی گئی ہیں جس سے بھوت بنگلے جیسے نظر آنے والے پل بھی چمک اٹھے ہیں۔۔

شہر کی تمام گرین بیلٹس میں نئے پودے سجے ہوئے، پرانے درختوں کی بھی تراش خراش کی گئی ہے۔ جہاں جنگلی گھاس کا راج تھا وہاں اب جدید کورین گراس لگائی جا رہی ہے اور نور خان ائیر بیس سے لے کر مہمانوں کے تمام راستے میں جدید رنگ برنگی لائٹس بھی لگی ہوئی ہیں۔۔

رات کو جب پودوں کے گرد لگی یہ لائٹس جلتی ہیں تو بہت پیاری لگتی ہیں۔
راستے میں جہاں جہاں سے مہمانوں نے گزرنا ہے وہاں سڑکیں نئی بن چکیں، ان پہ بھی سفید رنگ سے لین کو جدا کرنے کے لیے لکیریں بھی لگائی گئی ہیں.

شہر کے چوراہوں میں گھوڑوں کے خوبصورت مجسمے لگائے گئے ہیں، کہیں پہ کشتی سجائی گئی ہے۔۔ کہیں کچھ تو کہیں کچھ۔۔ اسلام آباد تو قدرتی طور پہ ویسے بھی خوبصورت ہے، سجاوٹ کے ساتھ تو دلہن جیسا لگ رہا ہے۔ وہاں سے گزرتے ہوئے منہ سے مسلسل سبحان اللہ اور ماشاءاللہ نکلتا رہا۔

جیسے ہی کورال چوک سے آگے پہنچا تو وہی اندھیرا راستہ، وہی گڑھے پڑی سڑکیں، درمیان میں گرین بیلٹ پہ لمبی لمبی گھاس۔۔ ٹیڑھے میڑھے درخت، سڑک بناتے ہوئے درمیان میں لائٹس لگانے کے لیے کھمبے تو لگائے گئے تھے مگر ان کو اب تک روشنی میسر نہیں ہو سکی۔

پی ڈبلیو ڈی کی مین روڈ پہ چڑھے تو وہاں سڑک پہ چاند پہ پڑے گڑھوں سے بڑے گڑھے موجود۔۔۔ حالانکہ ہمارے ایڈریس میں بھی اسلام آباد لکھا ہوا ہے مگر کورال چوک سے پیچھے کا جہاں اور ہے اور آگے کا جہاں اور ۔۔۔

ایکسپریس وے سے کوئی مہمان اندر کسی گلی میں نہیں جائے گا اس لیے اندر گلیوں اور سڑکوں کی حالت سے کسی کو کوئی غرض نہیں۔۔ ایسے میں دل سے دعا نکلی یا اللہ غوری ٹاؤن، قطبال ٹاؤن، کری روڈ، کورال ٹاؤن، فراش ٹاؤن، علی پور، ترامڑی چوک، چٹھہ بختاور، ائیرپورٹ ہاؤسنگ سوسائٹی، گلزار قائد، پی ڈبلیو ڈی، پولیس فاؤنڈیشن O-9، کورنگ ٹاؤن، پاکستان ٹاؤن بھی کوئی مہمان بھیج دے۔۔ تاکہ ان کی بھی سڑکیں مرمت ہو جائیں۔۔

یا اللہ، کوئی مہمان جنوبی پنجاب بھی بھیج تاکہ وہاں کے عوام بھی کوئی اچھی سڑک دیکھ سکیں۔۔ وہاں کے رہنے والوں کو بھی پتا چلے کہ سٹریٹ لائٹ صرف لاہور، کراچی، پشاور، اسلام آباد اور کوئٹہ کے لیے نہیں بنائی گئیں، چھوٹے شہروں میں بسنے والوں کا حق ہے کہ انہیں اچھی سڑک، سٹریٹ لائٹ میسر ہو۔۔

یا اللہ، کچے کے علاقے میں بھی کوئی مہمان بھیج تاکہ وہاں بھی سیکورٹی کا نظام اچھا ہو جائے۔۔ یا اللہ، اگر یہاں سڑکیں ایسے بننی ہیں تو یہ کانفرنسیں پورے ملک میں ہوں، ہر شہر میں ایسے مہمان بھیج۔۔۔ یا اللہ ہماری دعاؤں کو قبول فرما، آمین۔۔

یا اللہ اور مہمان بھیج

(بشکریہ شہریاریاں)

Comments are closed.